
ناظرین تاخیر کی وجہ ہر بار کی طرح ہمارے اکلوتے جانباز
رپورٹر/کیمرہ مین/صحافی 'رشید خبری' ہی ٹھہرے جو کہ عیدالفطر کے بعد ہی حج کے مقدس
فریضے پر روانہ ہو چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حج گناہوں سے پاک کر دیتا ہے اور ان
کی معصوم سی زندگی میں کوئی قابلِ ذکر گناہ ہی نہیں اسلئے وہ حج سے قبل ایک دو
مہینے دبئی کے پوش علاقوں میں گزارنا چاہتے ہیں۔
مدینہ منورہ میں داخل ہونے پر بھی ہمارے رشید خبری کو سخت
مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب محافظین نے ان کی شکل دیکھتے ہی 'مجوسی مجوسی' کا شور
مچا دیا اور انہیں اٹھا کر وہاں سے باہر پھینک دیا گیا۔ خوشقسمتی سے اسی وقت وہاں
ایک
کجھوروں کا ٹرک بھی اندر جا رہا تھا اور رشید خبری نے بروقت ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً اس میں چھلانگ لگا دی۔ ٹرک کی چیکنگ بھی ہوئی مگر انہیں کجھور کی سوکھی ہوئی گھٹلی سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔
کجھوروں کا ٹرک بھی اندر جا رہا تھا اور رشید خبری نے بروقت ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً اس میں چھلانگ لگا دی۔ ٹرک کی چیکنگ بھی ہوئی مگر انہیں کجھور کی سوکھی ہوئی گھٹلی سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔
ان سب مشکلات کے باوجود رشید خبری اپنے صحافتی فرائض سے ایک
پل غافل نہ ہوئے اور ریاض میں انہوں ملک کی نامور شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ رشید
خبری نے بتلایا کہ جس وقت میڈیا پر طاہر اشرفی کے شراب کی بوتلوں کے ساتھ پکڑے
جانے کی خبر لیک ہوئی اس وقت وہ خود اشرفی صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ خبر
دیکھتے دیکھتے پہلے تو اشرفی صاحب 'ریں ریں' کر کے رونا شروع ہوئے پھر باقاعدہ
دھاڑیں مارنے لگے اور تھوڑی دیر بعد رشید خبری کو پکڑ کر ان کی اچھی خاصی دھلائی
کر دی کہ آخر وہ بھی صحافی ہی تھے۔ رشید خبری نے اپنی جان بچانے کیلئے فوراً
متعلقہ نیوز چینل سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ اشرفی صاحب اس وقت ریاض میں
موجود ہیں جس پر نیوز چینل کا مؤقف تھا کہ: "پاکستان کے لحاظ سے تو اب وہ
بہرحال پکڑے گئے ہیں اور اس وقت پولیس کی تحویل میں ہیں، ضمانت ہونے کے بعد ہی کچھ
ہو سکے گا۔"
ناظرین رونے دھونے کا یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ عالمی
سطح پر بھی زار و قطار رونے کے سلسلے جاری رہے۔
اقوامِ متحدہ جنرل
اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پاکستانی وزیرِ اعظم نے بھارت کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ ان
کا کہنا تھا کہ بھارت کی حرکتیں نافرمان بچے کی طرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں، اگر
ایسا چلتا رہا تو بہت جلد اس کی ٹنڈ کروا کر بورڈنگ اسکول میں داخل کروانا پڑے گا وہ
بھی افغانستان کے بورڈنگ اسکول میں۔ ہمارے خفیہ رپورٹر جو کہ اس وقت اسمبلی میں ہی
موجود تھے (اب آپ لوگوں سے کیا چھپانا بزرگو ۔۔۔ اس بار ہم نے بارک اوبامہ کو ہی
ہائر کر لیا تھا ۔ ۔ ۔ جی وہی لیاری نژاد امریکی) انہوں نے بتایا کہ پاکستانی
وزیرِ اعظم کی پوری تقریر کے دوران 'نر بندر موذی' اخبار اپنے منہ کے آگے رکھ کر
ٹسے بہاتے رہے اور آخر میں تو اخبار سے ہی ناک بھی پونچھ ڈالی جس کے بعد ہر کوئی
ان سے مصافحہ بالجبر کرنے کے بعد اپنے ہاتھ صاف کرتا دکھائی دیا۔
پاکستانی وزیرِ اعظم کی اس تقریر کو خوب پذیرائی ملی۔ کیا
اپنے کیا پرائے سب ہی نے دل کھول کر داد دی اور ہفتے تک 'گو نواز گو' کے نعرے
ملتوی کرنے کا عہد کیا گیا۔ بردبار شریف حالات سے بیحد مطمئن اور خوش باش جہاز کے
ذریعے گھر واپس لوٹ رہے تھے کہ اچانک فیس بک پر ان کی نظر ایک پوسٹ پر پڑھی جس میں
کوئی حقیقت پسند صحافی یہ پھلجڑٰی چھوڑ چکا تھا:
"بردبار شریف نے جو اصل تقریر لکھی تھی اس کے متن کے
مطابق پاکستان نہ صرف کشمیر بلکہ بلوچستان، پنجاب کے 30 فیصد علاقے اور سندھ کا
بیشتر حصہ بھارت کے حوالے کرنے والا تھا۔ بردبار شریف یہ اعلان کرنے ہی والا تھا
کہ اچانک فضا میں ایک ڈنڈا نمودار ہوا جس پر ایک کاغذ لپٹا ہوا تھا، شریف نے اسے
کھول کر دیکھا تو اس میں وہ بعد والی تقریر لکھی ہوئی تھی جو اسے مجبوراً اسمبلی
میں پڑھنا پڑھ گئی کیونکہ آپ سب سمجھ ہی چکے ہونگے کہ وہ ڈنڈا کس کا تھا۔"
یہ پوسٹ پڑھ کر بردبار شریف کی اس زور سے ہچکیاں بندھیں کہ پورا
جہاز ہچکولے لینے لگا۔
ایک اور 'اندر کی خبر' کے بلاول ہاؤس کے پائیں باغ سے مالی
کو علی الصبح ایسی آوازیں آنے لگی تھیں جیسے کوئی پھاؤڑا لیکر پتھروں پر لکیریں
ڈال رہا ہو پھر اچانک ایک نعرے کی آواز آتی اور پھر وہی کھرچن۔ کچھ دن تک مالی خوف
کے مارے اطراف میں ہی منڈلاتا رہا پھر آخر ایک روز ہمت کر کہ باغ میں جھانکا تو کیا
دیکھتا ہے کہ زرد-آری صاحب گریبان چاک کئے بین ڈالتے ہیں پھر اچانک مٹھیاں بھینچ
کر آسمان کی طرف منہ کرتے ہیں اور چلاتے ہیں "شکریہ راحیل شریف"۔
ملکی سطح پر اور بھی کئی جگہ رونا دھونا دیکھنے میں آیا۔ بالخصوص
جب 'جہاز ترین' کے لاکھوں روپے کی الیکشن کمپین کے بعد اچانک لیگی ایم-این-اے صدیق
خان نے سپریم کورٹ سے سٹے آرڈر لے لئے۔ سننے میں آیا کہ جب سے جہاز ترین کے ساتھ
یہ عجیب ترین معاملہ ہوا ہے انہوں نے سرِ شام کنٹینر پر لگنے والی دوستوں کی محفل میں آنا
ترک کر دیا ہے۔
عیدالضحی کے موقع پر بھی مخصوص لبرل طبقے کا رونا دھونا
سننے میں آیا جن کا کہنا تھا کہ مہنگے جانور خرید کر ان کی قربانی کرنے سے بہتر ہے
کہ اس پیسے سے غریبوں کی شادی کروا دی جائے۔ البتہ قربانی کے طرفداروں نے اس پر شاندار
جواب دیتے ہوئے کہا کہ "ایک تو اگلا پہلے ہی غریب اوپر سے اس کی شادی بھی
کروا دیں؟ خدا کا خوف کرو ظالمو!" گائیں بکروں نے البتہ اس موضوع پر اپنی
رائے محفوظ رکھی اور کسی قسم کے تاثرات کا اظہار نہیں کیا۔
لندن سے بھی اطلاع موصول ہوئی ہے کہ کوئی شخص عید الاضحی کے
بعد سے گائیں کی کھال لپیٹ کر رات کے اندھیرے میں اپنے محل نما گھر سے باہر نکل
آتا ہے اور ذبح شدہ بکرے کی آوازیں نکال کر لوگوں کو ہراساں کرتا ہے۔ ہم اس بارے
میں یقین سے کچھ نہیں کہ سکتے البتہ ہمارا شک بھی وہیں جاتا ہے جہاں آُپ کا جا رہا
ہے (البتہ ہم نے گھر بھی جانا ہوتا ہے اس لئے ہم اس خبر کو یہیں تک رکھتے ہیں)۔
شوبز میں بھی رونے دھونے کے واقعات عروج پر رہے۔ لکس اسٹائل
ایوارڈز میں گلوکار علی ظفر کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا جس پر ان کی آنکھیں نم
ہوگئیں۔ اداکارہ عروہ نے رقص کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچانک جوش میں آ کر سلائیڈ مارنے
کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ بے ہنگم انداز میں اسٹیج پر جا گریں اور بقیہ رقص
بسنتی کی طرح روتے روتے پورا کیا۔ ان کی خفت مٹانے کیلئے گلوکار فرحان سعید انہیں
اپنا ایوارڈ پیش کیا اور ساتھ ہی عروہ کیلئے "گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ
میں" والا روایتی شعر بھی بے موقع پڑھ ڈالا جس پر کافی حساس لوگوں کا رونا
نکل گیا۔ نیز حال ہی میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلموں کے شاندار معیار نے بھی
قوم کو خون کے آنسو رلا دیا۔
ناظرین آپ کی طرح ہم بھی امید کرتے ہیں کہ دنیا اور بالخصوص
پاکستان اس 'زار و قطار' رونے سے جلد باہر نکلے اور ہمیں اچھی خبریں سننے کو ملیں۔
فی الحال اسی پر گزارہ کریں اور مزید کیلئے فیس بک پیج "فراز عادل کے قلم
سے" لائیک کرنا اور اپنی قیمتی آراء کا ا ظہار بذریعہ کمنٹس کرنا ہرگز نہ بھولیں۔
کیمرہ مین رشید خبری کے ساتھ، فراز عادل، عادل نیوز، کراچی،
پاکستان، جنوبی ایشیا، سیارہ زمین، کہکشاں شمسی، فلکِ خداوندی۔
؎ فراز عادل
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں