جمعرات، 11 جون، 2015

کارساز کی چڑیل ۔ ۔ ۔

قصہ کارساز کی چڑیل کا۔ ۔ ۔


Faraz Adils' funny Urdu Story "Karsaz ki churail"

گرمیوں کی حبس زدہ راتوں میں جب اچانک بجلی چلی جائے تو انسان کے اندر کا 'لنگوئسٹ' جاگ اٹھتا ہے، اس کیفیت میں انسان دل ہی دل میں ایسے الفاظ ایجاد کرتا ہے کہ شیطان بھی کانوں کو ہاتھ لگا کر وہاں سے لاحول پڑھتا دفع ہوجاتا ہے کہ ایسی 'وُکیبلری' تو ہمارے اجداد نے بھی نہ سوچی۔

شکایت کیلئے کال ملائیں تو جواب ملتا ہے کہ "جناب "لوڈ"
"لوڈ" کی وجہ سے آپ کے علاقے کا ٹرانسفرمر اڑ گیا ہے اور رات کے اس پہر ہمارے ورکرز بھلا اندھیرے میں کیونکر اسے ٹھیک کر پائینگے؟ بہتر ہے کہ آپ تہجد ادا کر کہ دعا مانگیں تو ہی شاید کوئی امید کی کرن پیدا ہو۔"
اب بندہ پوچھے کہ کونسا لوڈ اور کس بات کا لوڈ؟ ان تاروں سے بجلی بھلا گزرتی ہی کتنی ہے جو اس پر لوڈ پڑ گیا؟ ہم نے تو اس پر صرف دو قسم کے لوڈ دیکھے ہیں، کووں اور کبوتروں کا لوڈ یا پھر ان کے لوڈ کا لوڈ۔
 ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ پچھلے سال ہوا۔ ہمیں گرمی سے کچھ اس سطح کا بیر ہے جس سطح کا بیر ہماری عوام کو میٹرو بسوں سے ہے۔ سو ہم کچھ دیر تو گرمی میں کروٹیں بدل کر سونے کی کوشش کرتے رہے مگر جب آگ اگلتے بستر نے ہمارے جسم کا پانی اور باڈی بلڈر قسم کے مچھروں نے ہمارا تقریباً سارا خون چوس لیا تو ہم ہڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ جہاں خون کی کمی انسان کو مزید چڑچڑا بنا دیتی ہے وہیں پانی کے ساتھ ضائع ہونے والے نمکیات (الیکڑولائٹس) انسان کے دماغی توازن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ یہی حالت ہمارے بھی ہوئی اور ہم نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، اور نہ ہی بھاؤ ماؤ دیکھا، الغرض کچھ بھی نہ دیکھا اور اندھیرے میں دھڑیاں مارتے اور ٹھوکریں کھاتے ہم نے اپنی کھٹارہ کی چابی اٹھائی اور گھر سے باہر آگئے۔
سوالات حواس کے مرہونِ منت ہوتے ہیں اور ہم عالمِ مخبوط الحواسی کی معراج پر تھے۔ اس لیے سوال ہی نہ بنتا تھا کہ "کہاں جانا ہے؟

کیوں جانا ہے؟
 دماغ ٹھیک ہے؟
یہ کوئی وقت ہے؟"
 جیسے کوئی سوال پیدا ہوتے۔ ہم نے بائیک کو کک ماری، بائیک زکام زدہ بکرے کی طرح کھانسی اوراس نے ہمیں تلوے پر جوابی کک ماری، ہم بھینسے کی طرح ڈکرائے اور گدھے کی طرح ایک اور لات دے ماری، ہماری بائیک کا نحیف جسم رعشہ کے مریض کی طرح کچھ دیر تک کانپا اور آخر اسٹارٹ ہو ہی گیا۔ ہم نے بائیک گیر میں ڈالی اور گلی سے باہر نکل آئے۔
باہر بھی ہوا ندارد! یہ قدرت کا عجب قانون ہے کہ جس علاقے کی بتی چلی جائے وہاں ہوا بھی چلنا بند ہوجاتی ہے۔ ہم اس قانون سے اچھی طرح واقف تھے اسی لیے ہم اپنی راج دلاری کو ساتھ لیکر روانہ ہوئے تھے کہ دیکھیں اس قانون کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں اور ہمیں کہاں تک پکڑ پاتے ہیں۔ ہم نے اس ان دیکھے قانوں کو زبان چڑائی (صد شکر کوئی یہ سب کرتے ہوئے ہمیں دیکھ نہیں رہا تھا) اور مین روڈ پر آ گئے۔

 مین روڈ پر ٹھنڈی مدہوش کن ہوا چل رہی تھی۔ ہم بائیک لیے آگے بڑھتے چلے گئے۔ رات کا سنسان پراسرار رومانوی قسم کا ماحول، نہ بندہ نہ بندے کی ذات (صرف ہم)، ہو کا عالم ۔ ۔ ہم ٹرانس کی کیفیت میں بائیک چلاتے ہی رہ گئے ۔ ۔ اندھیرے کے سبب کچھ نشیبوں میں بائیک دھڑام دھڑوم ماری، کچھ فراز کراس کیے، کبھی بچھڑے دوستوں کا ماتم کرتے، کبھی خوشگوار بیتے لمحوں کو یاد کر کہ مسکراتے، کبھی نہ مل سکنے والی محبتوں پر بے چین ہوتے، اسی طرح مختلف جذبات میں ڈبکیاں لگاتے ہم ایک بڑے پل پر چڑھ گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ بالکل سامنے ایک دلہن کھڑی ہے۔ ۔ ۔ ۔

"یا خدا یہ کونسا وقت ہے گھر سے بھاگنے کا؟" ہم زیرِ لب بڑبڑائے۔ پہلے تو سوچا کنی کترا کر نکل جاتے ہیں، ہمیں اس سے کیا کہ کوئی کسی بھی وقت بھاگ کھڑا ہو؟ ہم کون ہوتے ہیں 'جج' کرنے والے؟ مگر پھر دل میں ایک اور خیال آیا کہ کہیں بیچاری راستہ نہ بھٹک گئی ہو۔ زیادہ تر لڑکیاں بیچاریاں صرف شادی کے دن ہی پہلی بار چہرہ ڈھانپتی ہیں، اس طرح گھونگھٹ کے ساتھ چلنے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے کہیں یہ شادی ہال سے لڑھکتی ہوئی ادھر نہ آگئی ہو۔ یہ خیال آتے ہی ہم اس کے پاس تشریف لے گئے۔ ۔

"اسلام و علیکم ۔ ۔ جی آپ اس وقت یہاں؟" ہم نے اپنی آواز حد درجے شریف رکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے باجود گلے سے پریم چوپڑا جیسی آواز ہی نکلی۔ اس نے تو کیا ڈرنا تھا ہم خود اپنی آواز سن کر ڈر گئے۔
"یہاں کہاں؟" وہ کھنکتی ہوئی آواز میں اسی طرح ہماری طرف کمر کیئے بولی۔
"بھئی یہاں ۔ ۔  اپنا رنچھوڑ لائن پر؟؟" ہم نے اپنے قریبی علاقے کا نام لے لیا کیونکہ ہمیں واقعی اندازہ نہیں تھا کہ ہم کہاں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔
"رنچھوڑ لائن؟" وہ اپنی کھنکتی ہوئی آواز میں ہنسی۔ "یہ کارساز کا پل ہے!" یہ کہ کر وہ آہستہ آہستہ ہماری طرف مڑی اور گھونگھٹ کھول دیا۔ اسے دیکھ کر ہمارے بچے کچے حواس بھی باختہ ہوگئے۔ اندھیری رات میں سورج کی طرح کا چمکتا چہرہ (بالکل 'سنی')، گھنے لانبے بال، کمال کا میک اپ:

  ۔

 سنگِ مرمر سے تراشیدہ خد و خال اور۔ ۔

 الٹے پیر ۔ ۔ 

"یہ کارساز کا پل ہے" ہمارے کانوں میں اس کی آواز گونجی۔

اس کا معائنہ کرتے ہوئے ہماری آنکھوں میں جو چمک پیدا ہوئی تھی حقیقت عیاں ہوتے ہی آنسؤں میں بدلنے لگی۔ اس سے قبل کہ ہم کوئی حرکت کر پاتے وہ سیٹی جیسی تیز آواز میں دیوانہ وار ہنسنے لگی ۔ ۔  پھر یکلخت چبھتی ہوئی آواز میں رونا ڈال دیا!

"ججی ۔ ۔ ۔ سنیں ۔ ۔" ہم ہکلاتے ہوئے اس کے بے سرے رونے میں مخل ہوئے۔ وہ خاموش ہو کر ہمیں تکنے لگی۔ "آپ ۔ ۔ ۔ آپ پہلے ہنسی کیوں؟ پھر رو کیوں پڑیں؟" ہمیں کچھ اور سمجھ نہ آیا، کہانیوں میں درجنوں بار پڑھا ہے کہ ایسے موقع پر یہی سوال پوچھنا چاہیے تبھی بات آگے بڑھ پاتی ہے سو یہی سوال داغ دیا۔
"معاف کیجیے گا ۔ ۔  مگر آپ کو دیکھ کر کیا کسی کی ہنسی نکل جانا کوئی اچنبھے کی بات ہے؟" اس نے نوکدار بھویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔ ہم خجالت سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ 

"تو پھر رونے کا ہی بتا دیں؟"
"بات یہ ہے کہ ۔ ۔ ارے آپ تو فراز ہیں نا؟ رائٹر؟ چھوڑیں آپ کو نہیں بتاتی آپ خاصے شریف نظر آتے ہیں۔" اس نے چونک کر ہمیں دیکھا اور بولتے بولتے رک  گئی۔
"نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں، آپ بے فکر ہو کر بتائیں میں ہر قسم کی بات سن لیا کرتا ہوں۔" ہمارا اشتیاق اور بڑھ گیا۔ اس نے سفید آنکھوں میں نصب نیلے ڈیلے نکال کر ہمیں گھوری ماری تو ہمارے باہر کو نکلے دانت فوراً واپس اندر ہو لیئے۔

"بات یہ ہے کہ۔ ۔  ایک دور تھا فراز میاں جب میں یہاں آوارہ بدروح کی طرح گھوما کرتی تھی ۔ ۔  جو کہ میں واقعی میں ہوں۔ ۔ شوقین مزاج آدمیوں سے لفٹ لیتی، ان سے کچھ دیر اٹھکیلیاں کرنے کے بعد انہیں قتل کرتی، ان کا خون پیتی، لوگوں کے ایکسیڈنٹ کرواتی، یعنی راوی میرے نصیب میں بس چین ہی چین لکھا کرتا تھا۔" اس نے اتنی سرد آہ بھری کہ ہماری کپکپی چھوٹ گئی۔
"پھر کیا ہوا؟" ہم ڈرتے ڈرتے بولے۔
"پھر کراچی کے حالات بدل گئے فراز میاں۔  ۔ کچھ بھی ویسا نہ رہا جیسا پہلے تھا۔ ۔" وہ ایک بار پھر ٹسے بہانے لگی۔

"کچھ سال پہلے کی بات ہے میں اسی طرح دلہن کے روپ میں پل پر کھڑی کسی بھلے مانس کو قتل کرنے کے انتظار میں ہلکان ہو رہی تھی۔ اتنے میں دو نوجوانوں نے میرے پاس بائیک روکی، پستول میری پسلیوں میں چبھوئی اور میرا سارا زیور اتار کر لے گئے۔"
"اوہ۔  ۔ ۔" ہم افسوس سے بولے۔
"پھر تو کمبختوں نے روٹین ہی بنا لی ۔ ۔ ہر رات کو آتے اور سارا زیور اتروا کر لے جاتے۔ ۔" اب وہ باقاعدہ ایک مجبور دکھیاری عورت کی طرح رونے لگی۔
"تو آپ نے پولیس سے شکایت نہیں کی؟" ہم نے پوچھا۔
"کی تھی ۔ ۔ نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کروائی۔" وہ درشتگی سے بولی۔ "پھر؟؟" "پھر ایک رات ان نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کے بجائے پولیس کی موبائل آئی۔ ۔ وہ کمبخت زیورات کے بجائے مجھے ہی اٹھا کر لے گئے۔ اب یہی تماشہ لگا ہوا ہے، ایک رات نامعلوم افراد زیور لیکر جاتے ہیں اور اگلی رات پولیس والے مجھے۔ ۔ ۔ یقین جانیئے فراز صاحب میں چڑیلستان میں کسی کو چہرہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔" فضا اس کی سوئی کی طرح باریک آواز والے رونے دھونے اور سسکیوں سے گونج اٹھی۔

 ہمارا دل پسیج کر رہ گیا۔ "سنیں ۔ ۔ میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟" ہم نے صدقِ دل سے آفر کی۔
 "جی ۔ ۔ میں نے آپ سے نور آتا ہوا محسوس کیا اسی لیے آپ کے سامنے ظاہر ہوئی ہوں۔ براہِ مہربانی مجھ پر کچھ آیتیں پڑھ کر پھونک دیں تاکہ میں یہاں سے بخیر و عافیت اپنے چڑیلستان واپس جا سکوں۔" اس نے ہماری منت کی۔
"ہم سے نور؟" ہم دل ہی دل میں اس کی بصارت پر ہنسنے لگے مگر پھر بجلی والوں کے مشورے پر تہجد پڑھنا یاد آگیا ۔ ۔ یقیناً یہی نور دیکھا ہوگا اس خوبصورت بلا نے۔
 اس کو بھیجنے کا ہمارا دل نہیں تھا مگر ہم اس کا رونا اور نہ دیکھ سکتے تھے نہ سن سکتے تھے۔ اس لئے ہم نے آیتہ الکرسی کا ورد کرنا شروع کیا اور اس پر پھونکیں مارنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مسرت بھری چیخیں مارتی، ہمارا شکریہ ادا کرتی وہاں سے رخصت ہوگئی۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا۔
 بائیک پر سوار ہونے لگے ہی تھے کہ نامعلوم افراد بھی اپنی بائیک پر سوار جائے واردات پر پہنچ گئے۔ انہیں دیکھ کر ہماری باچھیں کھل گئیں کہ شکر آج ان کی باری تھی پولیس کی نہیں۔ سعادت مندی سے اپنا موبائل اور بٹوہ ان کے حوالے کیا اور گھر واپس آ گئے۔

دوستو وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ کارساز پر کسی کو وہ دلہن نظر نہ آئی ۔ ۔ ہم نے سوچا آج آپ کو اس کے پیچھے کا اصل قصہ سنا ہی دیا جائے۔ مگر اب سننے میں آ رہا ہے کہ کوئی نئی دلہن وہاں نظر آنے لگی ہے ۔ ۔ ہو سکتا ہے یہ نئی دلہن پچھلی والی دلہن کی نند ہو جسے اس نے مزہ چکھانے کیلئے یہاں کراچی کے کارساز پر آنے کا مشورہ دے دیا ۔ ۔ بہرحال جو بھی ہو، ہمیں پوری امید ہے کہ کچھ دنوں بعد اسے بھی ہماری مدد کی ضرورت پڑے گی ۔ ۔ جس رات بھی ہمارا کارساز کے پل جانا ہوا آپ کو ضرور بتائینگے۔ 


؎ فراز عادل

(فراز عادل نے نئی پاکستانی فلمیں بنانے کے فارمولے پر سے پردہ اٹھا دیا۔ بیحد مزاحیہ ترکیب جس سے آپ اتفاق بھی کرینگے اور جو آپ کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ بھی کر دے گی۔ پڑھنے کیلئے کلک کریں: "جدید پاکستانی فلمیں بنانے کی آسان ترکیب" )





0 comments:

Facebook Blogger Plugin: Bloggerized by AllBlogTools.com Enhanced by MyBloggerTricks.com

ایک تبصرہ شائع کریں