جمعرات، 29 اکتوبر، 2015

میری ناک

لوگ اور موسم دیکھتے ہی دیکھتے بدل جاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ موسم بدلنے کا ہمیں انتظار رہتا ہے اور لوگوں کے بدلنے کا دھڑکا (اور بھی فرق ہونگے، ہمیں صرف یہی لگتا ہے، کیوں؟ کیونکہ ہماری مرضی!) سو دیکھتے ہی دیکھتے موسم نے کروٹ بدلی اور سورج کی تپش کو خود پر سے جھٹک ڈالا۔ ایک ہی دن میں سردی نے اپنی دھماکے دار اینٹری دے ماری اور جسم نے اپنی بیٹری ڈاؤن کر کہ پرزور احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ سستی، کاہلی، زکام، ہلکا سا بخار، خراب گلہ وغیرہ موسمِ سرما کی خصوصی سوغات ہیں سو وہ اس بار بھی دل کھول کر اپنے ساتھ لایا۔

کل ہی کی بات ہے کہ ہم دن بھر کے 'آرام' سے تھکے ہارے بستر پر سونے کیلئے لیٹے تو اچانک کہیں سے سیٹیاں بجنے کی آواز آنے لگی۔
غور کیا تو معلوم ہوا سیٹیوں کی آواز ہمارے کمرے سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ ۔ ۔ "یا اللہ یہ کونسا ٹریفک وارڈن ہمارے کمرے میں گھس آیا!" اِدھر اُدھر نظریں گھمائیں تو کچھ نظر نہ آیا جس کی 2 بنیادی وجوہات تھیں:

1) ہم چشمہ اتار کر کہیں دور رکھ چکے تھے
2) بتیاں بجھا چکے تھے

چونکہ 'ویلے' ہیں اس لئے موبائل کے بھی سرہانے موجود ہونے کا امکان نہیں تھا اور ہمارے اٹھ کر بتی جلانے کا تو بالکل بھی سوال نہیں پیدا ہوتا تھا۔ سیٹیاں بدستور جاری تھیں بلکہ اب تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بالکل ہمارے پاس کھڑا سیٹیاں بجاتا ہے۔
ہم عام طور پر اتنی آرام سے نہیں ڈرا کرتے، ہمیں ڈرانے کیلئے انتہائی درجے کے دل دہلا دینے والے حادثات وقوع پذیر ہونا لازم ہیں مثال کے طور پر:

1)    کوئی اچانک چھینک مار دے
2)    کہیں پٹاخہ پھٹ جائے
3)    کوئی یکدم کندھے پر ہاتھ رکھ دے
4)    کوئی زور سے ہمارا نام لے
5)    کمرے میں کوئی چیز رینگتی محسوس ہو جائے
6)    زمین پر اٹھکیلیاں کرتا کاکروچ یکلخت 'پر تولنے لگے' وغیرہ وغیرہ۔
مگر یہ سیٹیاں واقعی ہولناک تھیں۔ سو ہم ڈر گئے۔ ۔ ۔ وہ بھی کافی برے طٓریقے سے ۔ ۔ ۔ بس ڈرنے کی دیر تھی کہ اس پراسرار سیٹی باز نے بھی جیسے ہماری کمزوری بھانپ لی اور سیٹیوں کی آواز تیز تر ہونے لگی ۔ ۔ ۔ کبھی ٹریفک وارڈن جیسی سیٹٰی بجتی تو کبھی ٹرین جیسی۔ ۔ ۔  کبھی لمبی سی آواز آتی تو کبھی چھوٹی چھوٹی سی کئی آوازیں تسلسل کے ساتھ کانوں سے ٹکراتیں، کبھی تو سیٹیاں غراہٹ میں تبدیل ہو جاتیں اور کبھی باقاعدہ ڈھول سے بجنے لگتے۔ ہم ڈرتے ڈرتے کروٹیں بدل بدل کر رب کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگنے لگے۔ پرسوز ماحول میں ایک آدھ آنسو کا قطرہ بھی کہیں سے نکل آیا (ہمارا نہیں تھا ۔ ۔ ۔ مجال ہے جو ہم اتنی سی باتوں پر رو پڑیں ۔ ۔ ۔ ھا ھا ھا ۔ ۔ آپ بھی نا ۔ ۔ ۔ کیا سمجھ بیٹھے۔ ۔ ۔!)۔ بس آنسو نکلنے کی دیر تھی کہ آواز بالکل بند ہوگئی۔ تھوڑی دیر تک ہم سکتے عالم میں پڑے رہے پھر اچانک ہم پر افشاء ہوا کہ یہ سیٹیاں، غراہٹیں اور ڈھول دھماکے ہماری 'نیم بند ناک' سے برآمد ہو رہے تھے۔ لا حول ولا قوة الا بالله!



ناک قدرت کے کارخانے کی ایک نرالی تخلیق ہے۔ بند ہو تو بھی مصیبت اور ضرورت سے زیادہ کھلی ہو تو بھی جھمیلے۔ ہمارے ایک دوست 'اشعر' کی ناک ضرورت سے زیادہ کھلی ہوئی ہے۔ موصوف گلی کے نکڑ پر بیٹھے گپیں لگاتے لگاتے اچانک آنکھیں بند کرتے اور زور کی سانس کھینچتے، پھر تمتماتی آنکھیں کھول کر کپکپاتی آواز میں اعلان کرتے "چار گلیاں چھوڑ کر رہنے والی شبنم دہی لینے نیچے اتری ہے"۔
 ایک روز موصوف کو شبنم کے بجائے 'چرس' کے سگنل آنے لگے۔ ہمیں اپنے یار کی ناک پر پورا بھروسہ تھا، سب مجرم کا سراغ لگانے نکل پڑے۔ اب اشعر آگے آگے ہم پیچھے پیچھے ۔ ۔ ۔ کچھ ہی دیر میں اشعر سونگھتا سونگھتا ایک پولیس چوکی میں گھس گیا جہاں علاقے کے ایس-ایچ-او صاحب بمع ٹاسک فورس "
Chill" کر رہے تھے۔ بس اب آگے جو ہوا سو ہوا۔ ۔ ۔ ہم تفصیل میں نہیں جاتے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اگلے تین دنوں میں ہمیں اس بات کا اچھے سے احساس ہو گیا کہ 'بیٹھنا' کتنی بڑی نعمت ہے!

ناک کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ اس کے بند ہونے پر کوئی واویلہ بھی نہیں کرتا۔ اگر کسی کی ناک بند ہونے کا اعلان ہو تو کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا جاتا البتہ دل بند ہونے کا اعلان ہو تو کہرام مچ جاتا ہے۔ اس طرح کی باتیں ناک کی دل شکنی کا باعث بنتی ہیں۔

بہت سے لوگ لمبی، ستواں، نوکیلی سی ناک کو خوبصورتی کی علامت سمجھتے ہیں۔ ہماری رائے اس بارے میں کئی بار تبدیل ہوئی ہے:
1)    ابتداء میں ہم اس سوچ سے کڑا اختلاف رکھتے تھے۔ بھلا ناک اور خوبصورتی کا کیا تعلق؟ یہ بھی کوئی خوبصورتی جانچنے کا معیار ہے؟ ہمارے ایک دوست صغیر کی ناک اس قدر نوکیلی ہے کہ اسے کچھ دیر غور سے دیکھو تو آنکھوں میں چھبن سی ہونے لگے۔ احباب اس کو اپنے بچوں کی سالگرہ میں نہیں بلاتے کہ اس کے آتے ہی غبارے 'تڑخ تڑخ' پھٹ کر زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ مگر اس قدر باریک ناک کے باوجود اسے ظاہری طور پر بالکل خوبصورت نہیں کہا جا سکتا (باطنی طور پر تو باقاعدہ بدصورت کہا جا سکتا ہے، مگر اس میں ناک کا کوئی عمل دخل نہیں)
2)    اور پھر ہماری ملاقات ایک افریقی نیگرو سے ہوئی جس نے ہمارے خیالات یکسر تبدیل کر دیئے۔ اس مردِ نایاب کے دونوں نتھنوں کے درمیان اتنا فاصلہ تھا کہ خانہ بدوش باآسانی خیمے گاڑھ کر سکونت اختیار کر لیں۔ اس روز ہمیں احساس ہوا کہ واقعی سکڑی ہوئی ناک کو کافی حد تک خوبصورتی کی علامت سمجھا جا سکتا ہے! مگر یہاں ایک اور قابلِ ذکر بات ہے اور وہ یہ کہ ان طویل القامت نتھنوں کے باوجود افریقی جوڑوں کے درمیان مثالی محبت ہوا کرتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا محبت 'فاصلوں' سے کم نہیں ہوتی۔

ناک کو آج تک وہ مقام نہیں مل سکا جو چہرے کے باقی مکینوں کو نصیب ہوا۔ شاید اسی لئے ناک احساسِ کمتری کا شکار رہتی ہے۔ اس میں ہم جیسے متعصب مصنفوں کا بھی گہرا ہاتھ ہے، ہم ناول میں ہیروئن کی تعریف بھی کچھ ایسے کرتے ہیں:

"تمہاری پلکیں کس قدر گھنی اور لچھے دار ہیں بانو ۔ ۔ ۔ اور تمہاری آنکھیں ۔ ۔ ۔ جھیل سی گہری نیلی آنکھیں ۔ ۔ ۔ جی کرتا ہے ان میں تمہارے ظالم باپ کو ڈبو دوں ۔ ۔ ۔ اور تمہارے دانت کیسے موتیوں کی طرح چمکتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور تمہارے گلابی گداز ہونٹ جیسے گلاب کی پنکھڑی ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔  اور۔ ۔ ۔  اور تمہاری ایک ناک بھی ہے!"

اب جس معاشرے میں ناک کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جائے گا وہاں کیا خاک ترقی ہوگی!

ایسا نہیں کہ ناک کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں۔ ہمارے یہاں 'ناک پرست' لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اپنی ناک کی خاطر زندہ سالم انسان دفنا دیا کرتے ہیں۔ مگر سچ پوچھیں تو اس سے ناک کو کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ ناک عموماً امن پسند ہوتی ہے۔

بعض لوگ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ ایسے لوگ اپنی جگہ حق بجانب ہیں کیونکہ مکھی بھی انہیں کبھی اپنی ناک پر نہیں بٹھاتی۔ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

ناک آپ کے تعلقات خراب کروانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی کے سامنے اپنی ناک میں انگلی مار کر اس سے ہاتھ ملانے کی کوشش کریں۔ مرتے دم تک آپ سے ہاتھ نہیں ملائے گا۔

لڑکیوں اور ناک کا بہت پرانا اور گہرا تعلق ہے۔ جب لڑکیاں چھوٹی ہوتی ہیں تو انہیں ایک چھوٹی سی 'نوز پن' پہنا دی جاتی ہے مگر جب شادی کا وقت آتا ہے تو اس نوز پن کی جگہ ایک بڑی سی نتھ لے لیتی ہے جو کہ واضح طور پر خطرے کی علامت ہے۔ یہ لڑکی والوں کی شرافت کا منہ بولتا ثبوت ہے، نتھ پہنا کر وہ گویا لڑکے کو اشارتاً یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ خاطر جمع رکھنا، بپھر گئی تو ہماری ذمہ داری نہیں۔ لڑکا البتہ یہ بات جب تک سمجھتا ہے تب تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے، نتھ لڑکی کی ناک سے اتر کر اس کی ناک میں کب ڈالی جا چکی ہوتی ہے، کچھ پتہ نہیں چلتا۔


دوستو اب تک آپ سب بخوبی اندازہ لگا چکے ہونگے کہ ناک جس قدر سادہ لوح اور عام فہم سمجھی جاتی ہے اتنی ہے ہرگز نہیں۔ محض ایک نتھنے سے دوسرے نتھنے تک کی مختصر سی مسافت میں ہم نے علم و ہنر کے کیسے کیسے گوہرِ بے بہا جمع کئے، خدا جانے قدرت کے مزید کتنے رموز و اسرار اس میں پوشیدہ ہونگے، بس 'اندر جھانک' کر دیکھنے والا ہونا چاہیئے!

آخر میں ایک مردِ دانا کا قول سناتا چلوں جنہوں نے اس پوری تحریر کے نچوڑ کو کیا ہی خوبصورتی سے ایک فقرے میں بیان کیا ہے:

"واہ ڑے ناکوووو!!!"

؎ فراز عادل


(فراز عادل کی مزید مزاحیہ تحریریں پڑھیں: کارساز کی چڑیل، جدید پاکستانی فلمیں بنانے کا طریقہ، تو کبوتر ہے بسیرا کر، عادل نیوز قسط: زار و قطار)

تحریر شیئر کرنا اور فیس بک پیج لائک کرنا ہرگز نہ بھولئے گا!  Fb.com/FarazAdilPen



0 comments:

Facebook Blogger Plugin: Bloggerized by AllBlogTools.com Enhanced by MyBloggerTricks.com

ایک تبصرہ شائع کریں