پیر، 14 ستمبر، 2015

جدید پاکستانی فلم بنانے کی آسان ترکیب

how_to_make_new_pakistani_movies_funny_urdu_articleدوستو آج میں آپ کو بتاؤنگا ایک شدھ (خالص) پاکستانی فلم بنانے کی آسان ترکیب جس پر عمل کر کہ آپ ایک کامیاب فلم بنا پائینگے اور اپنے سچے اور محبِ وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دے پائینگے۔
(نوٹ: ترکیب کی حرف بہ حرف پیروی کریں ورنہ پاکستانی کے بجائے تامل فلم بھی بن سکتی ہے اور اس کا ذمہ دار میں نہیں ہونگا)

1۔ سب سے پہلے مرحلے میں اپنا مستند شجرہ اور نسب و حسب برآمد کریں۔ 

اب آپ اپنے شجرے میں بغور تلاش کیجئے آیا آپ کے دادا ۔ ۔پر دادا ۔ ۔   پر پر دادا ۔  ۔ پرررر دادا وغیرہ میں سے کوئی ٹی وی یا سینما کی قابلِ ذکر شخصیت تھے یا نہیں۔ اگر ہاں تو مبارکباد قبول کیجئے کہ آپ پاکستان میں فلم بنانے کی اولین شرط پر پورا اترے ہیں۔ اگر نہیں تو خموشی سے اپنا ریت مشین یا ویلڈنگ کا کام سیکھنا جاری رکھیئے۔
affwk37-fas15-aybeez_300x250

2۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ فلم بنانے کیلئے سب سے ضروری چیز ہے سکرپٹ۔ مشہور فلم ٹائی ٹینک کے ہدایتکار جیمز کیمرون سے فلم کے ابتدائی مراحل میں جب پوچھا گیا کہ فلم اندازاً کتنے عرصہ میں تیار ہو جائے گی تو انہوں نے سکرپٹ لہراتے ہوئے کہا کہ "فلم تیار ہے بس شوٹ کرنا باقی ہے" (شاید ٹائی ٹینک جیمز کیمرون کی انہی لاپرواہیوں کی وجہ سے ڈوبی۔ ۔ ۔ خیر یہ ہمارا مسئلہ نہیں)

تو بات ہو رہی تھی سکرپٹ کی۔ اب آپ غور کیجئے کہ کیا آپ کے پاس کوئی شاندار سکرپٹ موجود ہے؟ جیبیں الٹ کر دیکھیں، صوفے کے نیچے بھی جھانک لیں، امی سے پوچھنا ہرگز نہ پوچھیں کیونکہ 99٪ فیصد امید ہے کہ امی کہیں نہ کہیں سے سکرپٹ ڈھونڈ ہی نکالینگی۔ جب اچھی طرح تسلی ہو جائے کہ آپ کے پاس سکرپٹ موجود نہیں تو ایک اطیمنان بھری سانس لے کر 3 منٹ تک روکے رکھیں اور پھر 3 منٹ بعد زور سے ہوا خارج کرتے ہوئے (منہ سے ہی) ایک زوردار نعرہ ماریں کیونکہ آپ پاکستانی فلم بنانے کے دوسرے معیار پر 100 فیصد پورے اترے ہیں۔

3۔ تیسرے مرحلے میں آپ کو ایک سکرپٹ لکھنا ہوگا۔ یہ ایک پیچیدہ اور محنت طلب مرحلہ ہے مگر محنت میں ہی عظمت، شفقت، نرگس، رخسانہ و دیگر کاسٹ ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ سکرپٹ لکھنے کیلئے آپ پہلے کچھ خوبصورت رومانوی قسم کے ڈائیلاگز لکھ لیں بعد ازاں  اس کے ارد گرد ایک منفرد سا پلاٹ تشکیل دے دیں۔

اس عمل میں آپ کو اپنے اندر چھپے ٹیلنٹ کو پہچاننا ہوگا جس کیلئے آپ کچھ یوں کر سکتے ہیں کہ:
ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیجئے جو آپ کے گھر اور آبادی سے کوسوں دور ہو۔ جنگل مناسب رہے گا مگر خیال رہے کہ آدمخور درندے نہ ہوں ورنہ سکرپٹ پر کام کرنے کے بجائے آپ کا زیادہ تر وقت واش روم کے چکر لگانے میں گزر جائے گا (اور جنگل میں واش روم مشکل ہی دستیاب ہو اسلئے حالات کافی ناسازگار بھی ہو سکتے ہیں)۔ اب یہاں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں اور مظاہرِ فطرت کی تحفگی سے اپنے ژرفِ تخیل کو ترغیب دیجئے اور اسے اپنے ندرت الفاظ کی خلعت عطا کیجئے (اگر آپ کو یہ جملہ سمجھ نہیں آیا تو ٹائم پاس مت کیجئے اور سکرپٹ لکھنے کے بجائے نونہال میں نظمیں لکھیے)۔

کچھ دنوں کی مشق کے بعد قدرت سے حاصل کر کہ جورومانوی فلسفے (ڈائیلاگ) آپ نے قلم بند کئے ہیں انہیں بے فکر ہو کر با آوازِ بلند پڑھئے (کیونکہ یہاں آپ کو پتھر مارنے والا کوئی نہیں، اسی لئے ابتداء میں ہی ویران جگہ کا انتخاب کرنے کا کہا، یہاں آپ کے ڈائیلاگ سن کر حد سے حد کوا آپ پر بیٹ کر سکتا ہے)۔ اگر آپ کے ڈائیلاگ فلموں کے معیار پر پورے اترتے ہیں یعنی بالکل نئے اور جاندار ہیں جیسے کہ:
وہ ستارے دیکھ رہی ہو بانو ۔ ۔ ۔
ہاں راشد ۔ ۔ ۔
تمہارے کانوں کی بالیاں ایسے ہی چمکتی ہیں بانو ۔ ۔ ۔
ہائے راشد ۔ ۔ ۔ تم بھی نا!! اچھا تم وہ چاند دیکھ رہے ہو؟
ہاں بانو  ۔ ۔ ۔
تمہاری ٹنڈ بھی بالکل اسی کی طرح چمکتی ہے راشد!!
بانو!!!!!!
بولو راشد۔ ۔ ۔
تمہاری انہی باتوں کی وجہ سے تم کسی دن جاں بحق ہو جاؤ گی بانو!!
چل جھوٹے۔۔۔!!!
دفع ہو کمینی!!!!!

آہا!! اب ظاہر ہے کہ اس معیار کے ڈائیلاگز لکھنے میں تو آپ کو کئی سال لگیں گے مگر مجھے امید ہے کہ جو کچھ آپ لکھیں گے وہ پاکستانی فلم بنانے کیلئے کافی ہوگا۔

4۔ اب آتی ہے مزاح کی باری۔ مزاح کے بغیر تفریح کا تصور ممکن نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بھی آپ خود ہی بخوبی سر انجام دے سکتے ہیں اس کیلئے کسی مزاح نگار کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی 'فراز عادل' والی ٹائپ کے مزاح کمرشل حیثیت نہیں رکھتے اور آپ کو کمرشل کام کرنا ہے یعنی جو عام عوام پسند کرے۔ اس کیلئے آپ سڑک کنارے لگے چائے کے ہوٹلوں کا دورہ کریں، شیشہ کیفے کا رخ کریں، گیم کی دکان پر وقت گزاریں الغرض ہر اس جگہ پر پہنچ جائیں جہاں لچے لفنگے قسم کے نوجوان دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اول فول بک رہے ہوں۔ ان کی ساری واہی تباہی نوٹ کر لیں اور اس میں سے لیچڑ ترین ذو معنی الفاظ اور مزاح علیحدہ کر لیں۔ بس یہی وہ طنز و مزاح ہے جو آپ اپنی "فیملی فلم" میں استعمال کرینگے۔

 یہاں ایک مارکیٹنگ تکنیک بھی دیتا چلوں کے ان گھٹیا حرکات و لطائف کو اپنے ٹریلر میں ضرور عیاں کریں کہ اس طرح ٹریلر پر شیئرز ملینگے اور اوباش قسم کا نوجوان طبقہ "ابے بڑی تفریح فلم ہے استاد" "ہی ہی ہی بڑی ٭٭٭٭ فلم بنا دی لالا سینما کی ٹکٹ پکڑ لو فوراً" کے کمنٹس کے ساتھ آپ کا ٹریلر شیئر کرے گا!

5۔ بندہ فلم بنائے اور اس میں گانے اور ڈانس نہ ڈالے۔۔۔ یہ تو کسی دیوانے کی حرکت معلوم ہوتی ہے (جیسے کہ ہالی وڈ والے بیوقوف۔ ۔ ۔ بتاؤ ایک گانا ایک آئٹم نمبر تک نہیں ہوتا ان کی فلم میں  ۔ ۔ ۔ جبھی تو ناکام ہیں بیچارے ۔ ۔ ۔ خیر!)۔
گانوں کی دھن آپ بے شک کسی سے بھی بنوا لیں مگر میرا مشورہ ہے کہ ان کی شاعری خود کریں اور شاعری کیلئے زیادہ "آؤٹ آف دی باکس" سوچنے کی ضرورت نہیں کیونکہ حالیہ پاکستانی فلموں کے گانے بالکل صحیح روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ آپ انہی خیالات کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
"بلی ہوں میں بلی" گانے میں ذرا سی تبدیلی کر کہ آپ اسے "زیبرا ہوں میں زیبرا" "شتر مرغی ہوں میں شتر مرغی" "پانڈا ہوں میں پانڈا" وغیرہ بنا سکتے ہیں اور مذکورہ گانے سے زیادہ مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ زیبرا، شتر مرغ اور پانڈا حجم میں بلی سے کئی گنا بڑے ہوتے ہیں۔ نیز اس طرح کے گانے نیشنل جیوگرافک اور ڈسکوری پر بھی چلوائے جا سکتے ہیں جس سے فلم کو مزید مشہوری ملے گی۔

اگر سپانسرشپ کیلئے برانڈ ٹارگٹ کرنی ہو تو یہ کام بھی تازہ گانوں میں ترمیم کر کہ لیا جا سکتا ہے۔ مثلاً:
"فیئر اینڈ لولی کا جلوہ" کے بجائے "دھمتھل گاجر کا حلوہ" پر بھی گانا بنایا جا سکتا ہے۔ تجربات کریں اور اپنا ہنر نکھاریں مگر آپ کو جگجیت کی آتما کی قسم جو آپ نے کسی گیت لکھنے والے کی خدمات لکھنے کا سوچا بھی!

جہاں تک ڈانس یا آئیٹم نمبر کی بات ہے تو یہ ذہن میں رکھیں کہ ہماری اپنی ثقافت اور تہذیب ہے اور ہمیں اس کا احترام کرتے ہوئے پڑوسی ملک کی نقل سے ہر صورت بچنا ہے۔ اسلئے آئیٹم نمبرز میں ایسا لباس اور بے ہنگم مجرہ استعمال کریں کہ پڑوسی ملک کی بھی گھگھی بند جائے۔

6۔ اب آتے ہیں کاسٹ کی طرف۔ فلم کے کردار جاندار ہوں نہ ہوں مگر کاسٹ ضرور جاندار ہونی چاہیئے۔ اور جاندار سے میری مراد واقعی جاندار ہے (یعنی 90 کلو سے زائد وزن کے ہیرو انکلز)۔ یاد رکھئے کہ چھوٹی اسکرین بڑی اسکرین کچھ نہیں ہوتی۔ چھوٹا پن اور بڑا پن صرف دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ اس لئے آپ بے دھڑک انہی ادکاروں کو کاسٹ کریں جو پچھلے 220 سال سے ڈراموں میں ہیرو آ رہے ہیں چاہے وہ بڑی اسکرین پر اداکاری یا ڈانس کرتے ہوئے بدحواس کٹھ پتلیاں ہی کیوں نہ معلوم ہو رہے ہوں (یہ 'جلوہ' تو آپ سب دیکھ ہی چکے ہونگے)۔

اداکاراؤں میں آپ نئی لڑکیوں کو آزما سکتے ہیں مگر ایک بات ذہن میں رکھیں۔ ۔ ۔ اپنی فلم میں ایک بزرگ کا کردار ضرور رکھیں (جو بزرگ ہو کر بھی جوانوں جیسی حرکتیں کرتا پھرے) اور اس کردار کیلئے فلم انڈسٹری کے بزرگوں میں سے ہی کسی کا انتخاب کریں (جیسے کہ 'شیخ صاحب')۔ اگر فلم میں بزرگ (جیسے کہ 'شیخ' صاحب) کی جگہ نہیں بن رہی تو اسے ہیرو کا باپ بنا دیں، یا دادا بنا دیں، نانا بنانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، چلیں چاچا، تایا، ماما، پھوپھا کچھ تو آپ یقیناً بنا ہی سکتے ہیں ورنہ آپ سکرپٹ رائٹر کس کام کے۔ ہاں اگر ہیرو کا کردار ایسا ہے کہ وہ اس دنیا میں بالکل اکیلا ہے حتی کہ اس کے ماں باپ بھی اس کے پیدا ہونے سے 2 گھنٹے قبل ہی ڈینگی کا شکار ہو کر مر چکے تو اس صورت میں گڑبڑ ہو سکتی ہے۔ مگر پریشان مت ہوں، آخر میں کس دن کام آؤں گا! ایسی صورت میں آپ ہیرو کو فلم شروع ہوتے ہی گھر سے باہر اخبار لینے بھیجیں، اخبار بیچنے والا ہیرو کا چہرہ دیکھتے ہی سمجھ جائے گا کہ لڑکا پریشان ہے، وہ ہیرو کو چند زبردست قسم کے مشورے اور شیکسپئر کے چند سنہرے اقوال سنائے گا، کچھ ہی لمحوں میں ہیرو اس اخبار والے کو اپنے باپ کا رتبہ دے دیگا اور اپنے گھر لے آئے گا۔ بس یہ اخبار والا وہی بزرگِ جاوید (جیسے کہ 'شیخ' صاحب) ہونگے۔

7۔ مبارک ہو! آپ ایک کامیاب پاکستانی فلم بنا چکے ہیں جو بہت جلد پاکستان کے سینما گھروں کی زینت بنے گی اور کئی ریکارڈ توڑے گی! مگر ابھی آپ کا کام ختم نہیں ہوا جناب۔ آخر مارکیٹنگ کے بغیر فلم کس کام کی؟ تو آپ نے دو طرح کی مارکیٹنگ کرنی ہے۔ ایک ٹی وی پر اور دوسری فیس بُک پر۔

ٹی وی پر آپ بے مقصد قسم کے مارننگ شوز میں جائیں اور عوام الناس کو آنکھوں میں آنسو بھر کر بتائیں کہ آپ نے پاکستان کی خدمت کیلئے کیسا کارنامہ سر انجام دے دیا ہے، اس میں آپ کا کتنا خون پسینہ بہا اور آپ کی اس کاوش سے پاکستان 'کہاں سے کہاں' پہنچ جائے گا۔ انہیں یہ بھی بتائیں کہ یہ ایک مکمل فیملی فلم ہے (اگر آپ کی فیملی بھی ہماری فیملی جیسی ہے تو) اور یہ بھی باور کرواتے چلیں کہ پاکستان میں سینما کو زندہ کرنے کے با برکت مشن میں ان سب کا ٹکٹ لے کر فلم دیکھنے آنا باعثِ اجر ہوگا۔ نیز یہ بھی بتا دیجئے گا کہ ہفتہ کی رات کو آگے والی سیٹوں کے ٹکٹ لیکر آپ کے فلم دیکھنے سے پاکستان کی صحت پر دس گنا زیادہ بہتر اثر پڑتا  ہے اور اجر بھی کئی گنا زیادہ مل جاتا ہے۔
شوشل میڈیا پر بھی پاکستان کی تمام تر ترقی کو اپنی اس فلم کے ہٹ ہونے سے تعبیر کر کہ مہم چلائیں۔ اگر فلم کچھ زیادہ ہی عجیب بن گئی ہے تو کوئی بات نہیں۔ آپ ایک جذباتی قسم کی ویڈیو بنائیں جس میں فلم کی کاسٹ یہ بتا رہی ہو کہ کس طرح دلوں میں جذبہ حب الوطنی رکھ کر ان سب نے دن رات (اور دیگر رشتے) ایک کیں اور جی توڑ محنت کی۔ ساتھ ہی فیس بُک پر ایسے لوگوں کی ٹیم ہائر کرنا نہ بھولئے گا جو فلم پر برا تبصرہ کرنے والوں کو ارجنٹ انگریزی میں ایسی کھری کھری سنائیں، ایسی کھری کھری سنائیں کہ تبصرہ کرنے والا فیس بُک استعمال کرنے سے ہی توبہ کر لے۔ آپ کی ٹیم کو چاہئے کہ ایسے شخص کو پہلے فرسودہ تنگ نظر قسم کا جعلی دقیانوسی مولوی قرار دے کر اس پر فتویٰ لگا دے، پھر اسے پاکستان کی ترقی سے جلنے والوں کی فہرست میں ڈالے، پھر اسے بھارت کا حامی، راء کا ایجنٹ، سیف علی خان کا چمچہ  اور پاکستان کا غدار ثابت کرے، بعدِ ازاں اسے واجب القتل قرار دے کر عوام الناس کو اس کے پیچھے لگا کر خود غائب ہوجائے۔

تو دوستو یہ تھی جدید پاکستانی فلم بنانے کی آسان ترکیب۔ امید ہے آپ سب کو پسند آئی ہوگی اور شوقین حضرات آج ہی اس پر کام شروع کر دیں گے۔ تحریر کیسی لگی اور کیسی نہیں لگی اس بارے میں اپنے کمنٹس کے ذریعے ضرور آگاہ کریں اور مزید کیلئے پیج لائیک کرنا نہ بھولیں۔ اور ہاں ایک سب سے اہم بات تو بتانا بھول ہی گیا۔ ۔ ۔
فلم کے ٹریلر کے آخر میں
"پاکستانی تجھے سلام" چلانا نہ بھولئے گا!!!

؎ فراز عادل

(پاکستانی کبوتر نے بھارت جا کر کیا غل مچایا؟ پڑھیئے فراز عادل کی دلچسپ منظر کشی اور مزاح سے بھرپور تحریر:
"تو کبوتر ہے بسیرا کر")



1 comments:

FAB کہا...

Hahahahahaha very good maza agaya faraz

Facebook Blogger Plugin: Bloggerized by AllBlogTools.com Enhanced by MyBloggerTricks.com

ایک تبصرہ شائع کریں