بابا کے تحلیل ہونے کے بعد میں اپنے اردگرد کا جائزہ لینے
لگا۔ یہ تو واضح ہو چکا تھا کہ میری سیر خطرات سے خالی نہیں ہے۔ نجانے ملکہ ہزارہ
جیسی یا اس سے بھی متوحش و مہیب کتنی آفتوں سے مزید سامنا کرنا باقی تھا۔ کب کس
قدم پر کیسا قاتل سامنے آ جائے کچھ یقین نہیں تھا۔ البتہ اس راستے کے پرخطر نہ
ہونے پر بابا کی تحدیث حاصل تھی لہذا میں یہاں مطمئن تھا مگر جلد از جلد طلسم
ہزارہ سے جس قدر ممکن ہو فاصلہ اختیار کرنے کا خواہشمند تھا جو عین میرے عقب پر
موجود تھا۔ میرا موجودہ محل سفیدی مائل سنہرے ساحل تھے جن کا اختتام بڑے اور
خوبصورت پہاڑ پر ہوتا دکھائی دیتا تھا جو سونے کی طرح چمکتا ہوا نظر آتا۔ تمام
راستے پر مناسب فاصلوں سے مشعلیں لگی ہوئی تھیں۔ میں ان کے درمیان تیزی سے چلنے
لگا کہ عقب سے طلسم ہزارہ کی ہولناک آوازیں ابھی تک سنائی پڑتی تھیں۔
راستہ تکلیف دہ نہیں تھا اور سنہری مٹی پر چلنے سے تھکن کا
احساس بیحد کم ہوتا تھا۔ چلتے چلتے آدھا دن گزرا تو میں پہاڑ کے دامن تک پہنچ چکا
تھا۔ یہ پہاڑ واقعی ٹھوس سونے سے بنا تھا اور یہی وہ کوہ زر تھا جس پر شہر کنز کی
خبر مجھے دی گئی تھی۔ یہاں اور بھی بہت سے لوگ راستوں پر بیٹھے تھے جنہوں نے سونا
چاندی وغیرہ جمع کر رکھا تھا۔ گویا ان کا سفر یہیں ختم ہو گیا تھا اور یہ خدا کی
بے تحاشہ نعمتوں میں سے محض چند کو منزل مقصود بنا کر بڑی نعمتوں سے کنارہ کر چکے
تھے۔
یہاں پہنچ کر میں نے پیچھے رہ جانے والے طلسم ہزارہ کی طرف
دیکھا جو یہاں سے سیاہ و خشک روکھی گھٹا کی طرح نظر آ رہا تھا جس میں بے تحاشہ
بجلیاں کڑک رہی تھیں اور خوفناک شعلے لپک رہے تھے۔ کوہ زر کے پاس اور اس کے دوسری
طرف کا آسمان البتہ شفاف نظر آتا تھا یعنی یہاں موجود کوئی یقیناً شخص اندازہ نہیں
کر سکتا کہ ان ہولناک گھٹائوں اور بجلیوں کے حجاب میں درحقیقت کیسی پر خوف و خطر
بلاؤں کی دنیا اور تباہی کا سامان نہاں ہے۔ میں اپنی سلامتی پر شکر ادا کرتے ہوئے
کچھ دیر آرام کی نیت سے وہیں کوہ زر کے دامن میں ٹھہر گیا یہاں تک کہ شام طلوع ہوئی
جس سے سارا نظارہ یکسر تبدیل ہو گیا اور سنہرے ساحلی راستے پر موجود مشعلیں خودبخود روشن ہو
گئیں۔ میں نے رات کو اس طرح پھیلتے دیکھا کہ رات کوہ زر پر موجود شہر کنز سے دامن
بچا کر پھیلتی ہے گویا شہر میں اندھیرا نہیں ہوتا۔
پہاڑ پر موجود شہر کنز کی روشنیاں مستقل تھیں۔ اس کا مینار
خوب روشن نظر آ رہا تھا اور نہایت موزوں فاصلوں پر خوبصورت قمقمے جل رہے تھے۔ میں
نے سفر دوبارہ شروع کیا اور پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ سونے کا بنا یہ پہاڑ خوبصورتی میں
اپنی مثال آپ تھا۔ اس کی دھول سونے اور چاندی کی تھی اور قطار در قطار چاندی کے
درخت لہردار پٹیوں کی صورت سجے ہوئے تھے جن کا نظارہ مسافر کو مسحور کیے رکھتا۔۔۔