اتوار، 19 جون، 2016

سیور - باب اول قسط 5: شہر کنز کی سیر

شہر کنز کی سیر
بابا کے تحلیل ہونے کے بعد میں اپنے اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔ یہ تو واضح ہو چکا تھا کہ میری سیر خطرات سے خالی نہیں ہے۔ نجانے ملکہ ہزارہ جیسی یا اس سے بھی متوحش و مہیب کتنی آفتوں سے مزید سامنا کرنا باقی تھا۔ کب کس قدم پر کیسا قاتل سامنے آ جائے کچھ یقین نہیں تھا۔ البتہ اس راستے کے پرخطر نہ ہونے پر بابا کی تحدیث حاصل تھی لہذا میں یہاں مطمئن تھا مگر جلد از جلد طلسم ہزارہ سے جس قدر ممکن ہو فاصلہ اختیار کرنے کا خواہشمند تھا جو عین میرے عقب پر موجود تھا۔ میرا موجودہ محل سفیدی مائل سنہرے ساحل تھے جن کا اختتام بڑے اور خوبصورت پہاڑ پر ہوتا دکھائی دیتا تھا جو سونے کی طرح چمکتا ہوا نظر آتا۔ تمام راستے پر مناسب فاصلوں سے مشعلیں لگی ہوئی تھیں۔ میں ان کے درمیان تیزی سے چلنے لگا کہ عقب سے طلسم ہزارہ کی ہولناک آوازیں ابھی تک سنائی پڑتی تھیں۔
راستہ تکلیف دہ نہیں تھا اور سنہری مٹی پر چلنے سے تھکن کا احساس بیحد کم ہوتا تھا۔ چلتے چلتے آدھا دن گزرا تو میں پہاڑ کے دامن تک پہنچ چکا تھا۔ یہ پہاڑ واقعی ٹھوس سونے سے بنا تھا اور یہی وہ کوہ زر تھا جس پر شہر کنز کی خبر مجھے دی گئی تھی۔ یہاں اور بھی بہت سے لوگ راستوں پر بیٹھے تھے جنہوں نے سونا چاندی وغیرہ جمع کر رکھا تھا۔ گویا ان کا سفر یہیں ختم ہو گیا تھا اور یہ خدا کی بے تحاشہ نعمتوں میں سے محض چند کو منزل مقصود بنا کر بڑی نعمتوں سے کنارہ کر چکے تھے۔
یہاں پہنچ کر میں نے پیچھے رہ جانے والے طلسم ہزارہ کی طرف دیکھا جو یہاں سے سیاہ و خشک روکھی گھٹا کی طرح نظر آ رہا تھا جس میں بے تحاشہ بجلیاں کڑک رہی تھیں اور خوفناک شعلے لپک رہے تھے۔ کوہ زر کے پاس اور اس کے دوسری طرف کا آسمان البتہ شفاف نظر آتا تھا یعنی یہاں موجود کوئی یقیناً شخص اندازہ نہیں کر سکتا کہ ان ہولناک گھٹائوں اور بجلیوں کے حجاب میں درحقیقت کیسی پر خوف و خطر بلاؤں کی دنیا اور تباہی کا سامان نہاں ہے۔ میں اپنی سلامتی پر شکر ادا کرتے ہوئے کچھ دیر آرام کی نیت سے وہیں کوہ زر کے دامن میں ٹھہر گیا یہاں تک کہ شام طلوع ہوئی جس سے سارا نظارہ یکسر تبدیل ہو گیا اور سنہرے ساحلی راستے پر موجود مشعلیں خودبخود روشن ہو گئیں۔ میں نے رات کو اس طرح پھیلتے دیکھا کہ رات کوہ زر پر موجود شہر کنز سے دامن بچا کر پھیلتی ہے گویا شہر میں اندھیرا نہیں ہوتا۔
پہاڑ پر موجود شہر کنز کی روشنیاں مستقل تھیں۔ اس کا مینار خوب روشن نظر آ رہا تھا اور نہایت موزوں فاصلوں پر خوبصورت قمقمے جل رہے تھے۔ میں نے سفر دوبارہ شروع کیا اور پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ سونے کا بنا یہ پہاڑ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔ اس کی دھول سونے اور چاندی کی تھی اور قطار در قطار چاندی کے درخت لہردار پٹیوں کی صورت سجے ہوئے تھے جن کا نظارہ مسافر کو مسحور کیے رکھتا۔۔۔



جمعرات، 9 جون، 2016

پکوڑے کی تاریخ

پکوڑا کس قوم کی ایجاد ہے اور پہلی بار اسے کہاں، کس کے پاس اور کیا کرتے دیکھا گیا؟ مؤرخین کی اکثریت اس پر خاموش ہے۔ ان کی خاموشی کس سبب ہے؟ اس پر بھی پراسرار سی خاموشی ہے۔ ممکن ہے مؤرخین پکوڑا کھانے میں مصروف ہو گئے ہوں۔ یا پھر کھانے کے بعد چکنائی کی وجہ سے قلم نہ پکڑا جاتا ہو اور پھسل پھسل کر نکل جاتا ہو۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو اس کا نقصان یہ نکلا کہ ہم پکوڑے کے نقطہ آغاز کے بارے میں الجھن کا شکار ہو گئے۔
ایک مؤرخ نے اس کا مؤجد ایک مکرانی کو قرار دیا جس نے بیسن کی کچھ ٹکیاں بلاوجہ تیل میں پھینکیں اور چولہا جلانا بھول گیا۔ پھر جب کافی دیر تک وہ نہ پکیں تو مکرانی غصے میں "پکو۔۔۔ ڑے" چلایا اور بس یہی پکوڑوں کا نقطہ آغاز ہے۔
یہ روایت البتہ مجہول ہے اور اس کا روای بھی۔ نیز وہ مکرانی بھی مجہول معلوم ہوتا ہے اور اس کے پکوڑے بھی۔



ہفتہ، 4 جون، 2016

سیور - باب اول قسط نمبر 4: طلسم ہزارہ

طلسم ہزارہ

(سیور کی پچھلی اقساط ترتیب وار پڑھنے کیلئے کلک کر سکتے ہیں: قسط 1 یقین کا نخلستان، قسط 2 آخری کوشش، قسط 3 شعلہ عشق


طلسم ہزارہ

"میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پھر میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو مخلوق بنا دی تاکہ پہچانے"
میں دیر تلک اس واقعہ سے پیدا ہونے والی لذت و کیفیات میں ڈوبا رہا۔بیشک اس دنیا کی بہت بڑی حقیقت مجھ پر عیاں ہوئی تھی اور رب کےرحمان و  رحیم ہونے کی صفات خوب واضح ہو چکی تھی۔
لوح گزر گئی مگر میں اس شاندار تصادم کے باعث پیدا ہونے والے سرور و مستی میں مگن ہوتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ میری زبان سے جاری ہوا:
"الٰہی ہمارے معبود! ہم تجھ سے تیرے قرب کا سیدھا راستہ مانگتے ہیں۔"
بس اتنا کہنا تھا کہ ایک شورش اور بڑا ہنگامہ پیدا ہوگیا۔ سرحد اور اس کے اطراف میں جو کچھ تھا بری طرح لرزنے لگا جیسے ابھی یہ لرزش ہر موجود شئی کا وجود تحلیل کر دے گی۔ ہر سمت سے ایسا شور اٹھنے لگا اور ایسی آوازیں بلند ہونے لگیں جن سے کان واقف نہیں تھے۔ پھر اس ہیجان اور شور و غل میں کثیف دھوئیں کے مرغولے اڑنے لگے جنہوں نے چار سو ڈیرا جما لیا اور دھند نے سرحد کو نگل لیا گویا ایک بالکل عجیب اور نئی جگہ وجود پذیر ہوئی۔ بیرونی ہنگامہ تھم گیا مگر اس نئی جگہ کی ہولناکی نے میرے اندر زبردست ہنگامہ برپا کر دیا۔
دھند  سے چاروں طرف گھرا میں ایک ایسی عجیب جگہ کھڑا تھا جس کا نقشہ بیان کرنا محال ہے۔ یہ دھند گہری تھی جس سے روشنی بیحد کم ہو گئی تھی اور خوف طاری کرنے والا اندھیرا حاوی ہوتا چلا گیا۔۔۔ دھند پراسرار سرگوشیوں کے ساتھ چل رہی تھی جیسے زندہ ہو۔ ۔۔ اور اس دھند کے پیچھے سے ہزاروں سرخ آنکھیں  اِدھر اُدھر دیکھتی تھیں۔۔۔ آنکھیں جو کہ  اپنے آپ میں پوری تھیں اور ان کے ساتھ اورکچھ  جسم نہیں تھا۔۔۔ میرے دل میں خواہش ہوئی کہ بس ان کی توجہ میری طرف نہ ہونے پائے۔ میں راہ فرار تلاش کرنے کیلئے اردگرد تیزی سے نظریں گھمانے لگا۔