طلسم ہزارہ
(سیور کی پچھلی اقساط ترتیب وار پڑھنے کیلئے کلک کر سکتے
ہیں: قسط 1 یقین کا نخلستان، قسط 2 آخری کوشش، قسط 3 شعلہ عشق)
"میں
ایک پوشیدہ خزانہ تھا پھر میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو مخلوق بنا دی تاکہ پہچانے"
میں دیر تلک اس واقعہ سے پیدا ہونے والی لذت و کیفیات میں ڈوبا
رہا۔بیشک اس دنیا کی بہت بڑی حقیقت مجھ پر عیاں ہوئی تھی اور رب کےرحمان و رحیم ہونے کی صفات خوب واضح ہو چکی تھی۔
لوح گزر گئی مگر میں اس شاندار تصادم کے باعث پیدا ہونے والے سرور
و مستی میں مگن ہوتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ میری زبان سے جاری ہوا:
"الٰہی ہمارے معبود! ہم تجھ سے تیرے قرب کا سیدھا راستہ
مانگتے ہیں۔"
بس اتنا کہنا تھا کہ ایک
شورش اور بڑا ہنگامہ پیدا ہوگیا۔ سرحد اور اس کے اطراف
میں جو کچھ تھا بری طرح لرزنے لگا جیسے ابھی یہ لرزش ہر موجود شئی کا وجود تحلیل
کر دے گی۔ ہر سمت سے ایسا شور اٹھنے لگا اور ایسی آوازیں بلند ہونے لگیں جن سے کان
واقف نہیں تھے۔ پھر اس ہیجان اور شور و غل میں کثیف دھوئیں کے مرغولے اڑنے لگے جنہوں
نے چار سو ڈیرا جما لیا اور دھند نے سرحد کو نگل لیا گویا ایک بالکل عجیب اور نئی
جگہ وجود پذیر ہوئی۔ بیرونی ہنگامہ تھم گیا مگر اس نئی جگہ کی ہولناکی نے میرے اندر زبردست ہنگامہ برپا کر دیا۔
دھند سے چاروں طرف گھرا
میں ایک ایسی عجیب جگہ کھڑا تھا جس کا نقشہ بیان کرنا محال ہے۔ یہ دھند گہری تھی
جس سے روشنی بیحد کم ہو گئی تھی اور خوف طاری کرنے والا اندھیرا حاوی ہوتا چلا گیا۔۔۔ دھند
پراسرار سرگوشیوں کے ساتھ چل رہی تھی جیسے زندہ ہو۔ ۔۔ اور اس دھند کے پیچھے سے
ہزاروں سرخ آنکھیں اِدھر اُدھر دیکھتی
تھیں۔۔۔ آنکھیں جو کہ اپنے آپ میں پوری
تھیں اور ان کے ساتھ اورکچھ جسم نہیں تھا۔۔۔
میرے دل میں خواہش ہوئی کہ بس ان کی توجہ میری طرف نہ ہونے پائے۔ میں راہ فرار
تلاش کرنے کیلئے اردگرد تیزی سے نظریں گھمانے لگا۔
یہاں سے نکلنے کیلئے ضروری تھا کہ میں اس جگہ کو سمجھ پاتا مگر اسے ٹھیک طرح سمجھنا ہی مشکل کام تھا۔ پھر
سرگوشیوں کے ساتھ چلتی دھند اور اس کا سیاہ اندھیرا اور پھر اس کی اوٹ سے جھانکتی
سرخ خون آشام آنکھیں میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں پر بری طرح اثر انداز ہو رہی تھیں۔
میں خود کو مکمل طور پر بے بس محسوس کرنے لگا اور یوں لگنے لگا کہ اب بقیہ سانسیں
یہیں پر گزارنی ہو نگیں۔ آخر میں نے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ایک قدم آگے
بڑھایا۔ قدم کا بڑھانا تھا کہ یکایک اس دھند میں حرکت پیدا ہوئی اور ایک ہشت پا
(آکٹوپس) کے ہزاروں بازو سانپ کی طرح بل کھاتے اور مچلتے ہوئے نمودار ہو گئے۔ میں
ان سے گھبرا کر تیزی سے سمٹنے لگا اور پیچھے ہٹنے لگا تو یہ مزید تیزی سے کلبلاتے
ہوئے میرے اردگرد اس طرح پھیل گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دور تلک ان موٹے اور خوفناک
بازؤں کا گھیرا اس طرح پھیل گیا کہ ان سے بچ نکلنا قطعاً ناممکن معلوم ہونے لگا۔
ہشت پا کے بازو مسلسل حرکت میں تھے جیسے اس جسم کی تلاش میں ہوں جس
نے یہاں سے فرار ہونے کی جسارت کی تھی۔۔ میں بالکل سمٹ کر ساکن اپنی جگہ کھڑا ہو گیا اور سانس بھی آہستگی
سے لینے لگا۔ کئی ایک بار کوئی بازو میرے جسم کے بہت قریب آ جاتا تو میں اس کی زد
سے بچنے کیلئے جسم کو انتہائی معمولی حرکت دیتا اور کسی نہ کسی طرح اس سے بچ جاتا۔
نہ صرف یہ کہ ہشت پا کا ہر بازو دنیا کے سب سے بڑے اژدھے سے بھی کئی گنا بڑا اور موٹا
تھا بلکہ ہر بازو کی دہشت بھی اس سے کئی گنا زیادہ تھی۔ ہر بازو پر سینکڑوں بڑے
ہوائی پمپ تھے اور ہر پمپ کا حجم مجھ سے بھی بڑا تھا۔ میں ان دہشت ناک ہاتھوں کے
درمیان بے بس و لاچار کھڑا اگلی ہونی کا منتظر تھا۔
بے تحاشہ پھیل چکنے کے بعد
اب ان کی رفتار سست ہو گئی۔۔ اب یہ ہلکی
آواز کے ساتھ سرکتے جا رہے تھے اور اب میری موجودگی سے بے خبر معلوم ہو رہے تھے۔ گویا میرے حرکت کرنے
سے ہی انہیں میری موجودگی کا احساس ہوا تھا۔ ان کے شر سے بچنے کیلئے مجھے ساکن
رہنا چاہیئے تھا مگر میں آخر کب تک یہاں
بت بنا کھڑا رہا سکتا تھا؟ دوسرا کسی بھی وقت کوئی بازو مجھ سے ٹکرا جاتا تو میری
موجودگی ان پر عیاں ہو جاتی اور پھر یہ مجھے محض لمحوں میں کھینچ کر کہیں لے جاتے
یا میرے گرد لپٹ کر میرا جسم توڑ ڈالتے۔ حرکت میں آنے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ
نہیں تھا۔ کافی دیر ہمت جمع کرنے کے بعد میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنا پیر اٹھایا
اور دو سرکتے بازؤں کے درمیان موجود خالی جگہ پر رکھ دیا اور سانس تھامے رد عمل کا
انتظار کرنے لگا۔ بازو پہلے کی سی طرح ہی رینگتے رہے۔ کچھ مطمئن ہو کرمیں نے اگلا
پیر اچھی طرح جمایا اور پچھلا پیر اٹھا
لیا۔ پیر اٹھنے کے ساتھ ہی بازؤں کا چلنا ایکدم بند ہو گیا۔ میرا حلق خشک ہونے
لگا۔۔ بازؤں پر نصب بڑے ہوائی پمپ چوکنے انداز میں اِدھر اُدھر ہلنے لگے۔ ۔آہستہ
آہستہ مڑتے ہوئے سب کے رخ ایک ایک کر کہ میری طرف ہوتے چلے گئے۔۔ ہشت پا کے بازؤں نے مجھے
دیکھ لیا تھا۔۔۔
میں بے بس کھڑا ان کے مجھ پر ٹوٹ پڑنے کا انتظار کرتا رہا۔ مگر
حیرت انگیز طور پر کافی دیر گزرنے کے بعد بھی مجھ پر کوئی حملہ نہ کیا گیا۔ پھر
دیکھتے ہی دیکھتے سارے بازو مردہ ہو کر
مکمل زمین پر گر گئے اور راستوں کی شکل اختیار کرنے لگ گئے یہاں تک کہ چند لمحوں
میں سب راستوں میں ایسے تبدیل ہو گئے جیسےیہاں کبھی ان خوفناک ہاتھوں کا وجود تھا
ہی نہیں۔دھند بھی چھٹنے لگی اور ساتھ ہی روشنی میں اضافہ ہونے لگ گیا۔ راستوں پر
پہلے کچھ انسانی شور و غل اٹھا جیسے دور سے آوازیں آتی ہوں پھر ان پر انسان چلتے
پھرتے نظر آنے لگے۔ خوش و خرم، معمولات زندگی میں مگن اور ہشت پا کی موجودگی سے
قطعاً لا علم۔ یہاں تک کہ زندگی سے بھرپور پر رونق راستوں کو دیکھ کر میں بھی کچھ
دیر پہلے کے ہولناک مناظر کو کچھ بھولنے لگا اور جی چاہا کہ ان راستوں کا مسافر
بنا جائے اور بے فکری کے مزے لوٹے جائیں۔مگر جیسے ہی یہ خواہش غالب آنے لگتی اور
ان کی جانب قدم بڑھانے لگتا تو گزشتہ حالات کی وحشت مجھے خبردار کرتی۔ میں شدید
کشمکش میں کھڑا رہا حتی کہ عاجزآ گیا اوراللہ کے حضور مدد طلب کی اوردل میں خواہش
پیدا ہوئی کہ بابا صحرائی مدد و رہنمائی کیلئے یہاں موجودہوتے۔
خواہش کا پیدا ہونا تھا کہ دعا قبول ہوئی اور دل کو راحت بخشنے
والی مانوس آواز کانوں سے ٹکرائی:
"اسلام و علیکم شفقتِ آثارا و جگر پارہ۔ یہ طلسم ہزارہ ہے۔ تم اس کی کچھ حقیقت
دیکھ چکے ہو اور کچھ ابھی دیکھ لو گے۔ اپنا دھیان بھٹکنے نہ دینا ورنہ اس کی حقیقت
بھولنے میں محض چند ہی لمحے لگیں گے اور پھر تم ہمیشہ کیلئے ان راہوں
کے اسیر بن کر رہ جاؤ گے۔ یہ بھول بھلیاں ہیں، ان میں جو پھنس جاتا ہے وہ اپنا سب
کچھ لٹوانے سے پہلے نہیں نکل پاتا۔ یقین پختہ کر لو کہ یہ راستے اپنی تمام تر
لذتوں اور کشش کے باجود صرف تباہی تک ہی لے کر جاتے ہیں۔ اے پسر یقین پختہ کر لو
کہ سیدھا اور سچا راستہ بس رب رحیم کا راستہ ہے۔"
اتنا کہ کر بابا کی آواز
خاموش ہو گئی مگر اس تنبیہ میں بیحد قوت تھی جس سے دل میں اس طلسم کی حقیقت سمجھنے
اور اس سے بچنے کا عزم خوب بلند ہوا۔ اب جو غور کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ راستے دوبارہ
ہشت پا کے بازو یعنی اپنی اصل شکل اختیار کر چکے ہیں اور اس بار دور تک دکھائی
پڑتا ہے یعنی کہ ان کے انجام تک۔ اور ان سب کا انجام ایک ہی مقام تھا یعنی ایک
ناقابل یقین حد تک بڑا اور دہشت ناک ہشت پا جس کی آنکھیں بند تھیں ۔ حیرت انگیز
طور پر اس دیو قامت مخلوق کے سر پر ایک تخت دھرا تھا اور اس تخت پر ایک دلربا حسین ملکہ بیٹھی تھی جس کا حسن عدیم المثال اور عمر
چڑھتی جوانی جیسی ہوگی، دانت گویا انار کے دانوں کی طرح مناسب اور گال سرخ و رنگ
سفید، آنکھیں بڑی اور دلکش و سحر انگیزاور سر پر سونے کا تاج رکھے تھی جس میں مختلف قیمتی ہیرے موتی ٹنگے
ہوئے تھے۔ اسکے گرد ایک حلقہ میں دھند پھیلی ہوئی تھی جو کہ کم اور زیادہ نہیں
ہورہی تھی اور اس دھند میں چھ وجود تین سفید پوشاکوں میں اور تین سیاہ پوشاکوں میں
ملبوس ہاتھ باندھے ادب سے ملکہ کے سامنے کھڑے تھے۔
اس ملکہ نے میری طرف
ایک سرسری نظر کی تو ہزاروں بازؤں میں سے کئی پھر
راستوں کی شکل اختیار کر کہ میرے سامنے آ گئے اور یہ تمام میرےمن پسند راستے تھے
جو میری طبیعت کے موافق تھے۔ اگرچہ میں اس ملکہ اور ان راستوں کو دیکھ کر دوبارہ غافل ہونے
لگا اور ان کی تمنا میرے دل میں پیدا ہوئی مگر میرے کانوں بابا صحرائی کی تنبیہ کی
بازگشت پھر سنائی دی اور ان کی فراموش ہوتی حقیقت پھر پوری قوت سے ظاہر ہوئی سو
راستوں کی دلکشی ختم ہوئی اور اس طلسم کے ہولناک بازو اژدھے کی طرح کلبلاتےہوئے
ظاہر ہو گئے۔ میں نے دل میں رب کریم سے سیدھے راستے کی تمنا کی اور پکارا:
"الٰہی ہمارے معبود"
"الٰہی ہمارے معبود"
حیرت انگیز طور پر دور بیٹھی ملکہ نے میرے
الفاظ سن لیے۔ بس پھر اس نے اپنا رخ میری طرف پھیر لیا اور اپنی تمام تر توجہ میری
طرف مرکوز کر لی جس پر تمام آنکھیں مجھے تکنے لگیں۔ تمام راستوں پر ہلچل ختم ہو
گئی گویا سب کی مکمل توجہ اب میری طرف تھی۔ ماحول کی دہشت میرے دل میں اترنے لگی۔
ملکہ کی آنکھوں میں طیش و غضب تھا مگر یکلخت
اس کی نظریں تبدیل ہو گئیں اور ان میں چاؤ اور ناز و انداز اتر آیا۔خوفناک سرخ
آنکھیں غائب ہو گئیں اور ان کی جگہ لہلہاتے پھولوں نے لے لی۔ دھند مٹ گئی اور رنگ
و روشنی نمودار ہوئی۔ پراسرار سرگوشیاں خموش ہو گئیں اور ان کے بجائے دلفریب ساز و
موسیقی بجنے لگے۔ راستے دوبارہ سج گئے اور ان پر چلنے والے مسافر زندگی سے بھرپور
اور خوش باش لگنے لگے۔ الغرض منظر یکسر تبدیل اور خوش نما ہو گیا کہ اس کا حصہ
بننے کی خواہش پھر امڈ کر آنے لگی اور اس بار پچھلی سے شدید تھی۔مجھے مشغول دیکھ
کر ملکہ اپنی سریلی و شیریں آواز میں مجھ سے مخاطب ہوئی:
"اے نوجوان میری طرف دیکھ۔ "
میں کوشش کے باوجود اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ توجہ پا کر اس کے لبوں
پر خوبصورت فاتحانہ مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی اور اس کے حسن میں مزید اضافہ ہو گیا۔
وہ کھنکتی ہوئی آواز میں دوبارہ گویا ہوئی:
"میں خدا کی نادر المثال تخلیق ہوں اورمیرا حُسن لاجواب ہے۔ میری حشر سامانیوں میں
سے صرف ایک چنگاری ابلیس ہے۔ سب لوگ میرے وصل کے پیاسے ہیں اور یہ راستے انہیں مجھ
تک لاتے ہیں۔اے نوجوان، تو مجھے بہت خاص
محسوس ہوتا ہے، اپنی ہمت کے مطابق اپنی پسند کا راہ لے اور مجھ تک پہنچنے کی کوشش
کر۔ اگر تو کامیاب رہا تو میں اپنے وقت سے ایک دن اور رات تجھے دوں گی اور اپنے
وصال سے تجھے راحت بخشوں گی۔"
ملکہ کا کلام سحر انگیز تھا اور باتوں سے چاشنی ٹپکتی تھی۔ بابا
صحرائی کی نصیحت کا اثر جاتا رہا اور میرا رخ شوق سے اس کی طرف ہوتا چلا گیا۔ ملکہ
نے دلفریب انداز میں مسکراتے ہوئے ناز
بھرے انداز میں اپنے سامنے کھڑے تین سیاہ پوشوں کو ایک مخصوص اشارہ کیا۔
اشارہ پا کر وہ فی الفور ہوا میں بلند ہونے لگے اور پھر پلٹ کر میری جانب اڑنے لگے
یہاں تک کہ میرے بیحد قریب پہنچ گئے۔ پھر تینوں ایک زبان کہنے لگے:
"ہم اس ملکہ کے قاصد ہیں اور یہ راستے جن کو تم دیکھتے ہو ان میں سے تین صدر راستوں کے کامیاب علیحدہ علیحدہ
مسافر ہیں۔ ان راستوں پر چل کرہی ہم اس
ملکہ کے وصل کے قریب ترین پہنچے ہیں۔"
اتنا کہ کر تینوں خاموش ہو گئے اور مجھے جانچتی
نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ پھر ان میں سے ایک جو کافی موٹا اور ٹھگنے قد کا تھا رنگ کا
سانولا چہرے پر چیچک کے داغ اور آنکھوں سے چالاک کچھ آگے بڑھا اور بلند آواز میں
بولا:
"تم کون ہو؟"میں نے پوچھا۔
وہ بلند آواز میں کہنے
لگا:
"اے شخص! میرے انگنت نام ہیں اور لاتعداد روپ ہیں۔ میرا ہر
شکل میں جدا ہی نام ہے ۔مشرقی مجھے کچھ اور ہی جانتے ہیں اور مغربی کچھ اور البتہ
سادہ زبان میں کہوں تو میں سرمایہ دار ہوں اور دولت کو دوگنا چوگنا کرنا میرا کام
ہے جسے میں بہت چالاکی سے لوگوں کی محنت و مزدوری کے سامان سے لوٹ لیتا ہوں۔ میں
نے خود کبھی اپنی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کوئی جسمانی محنت نہیں کی۔ یہ گندم،
چاول جو فصلوں میں اگتی ہے یہ انگور جو تاکوں پر اگتا ہے یہ سیب جو درختوں پر لگتا
ہے اسکو اگانے اور کاشت کرنے والا اسکو پکانے والا بھی وہ حصہ وصول نہیں کرسکتا جو
میں مال کی تدبیر سے اس میں سے نکال لیتا ہوں۔ یہ سب میری تدبیر کا کمال ہے جو
مجھے اس راستے نے سکھائی ہے جس کا میں مسافر ہوں"۔
اتنا کہ کر وہ خاموش ہو
گیا اور واپس ہٹ گیا ۔ اسکے لوٹ جانے پر
دوسرا آگے بڑھا جو رنگ کا سانولا،چوڑا چکلا، دراز قد اور بے داڑھی بڑی بڑی مونچھوں
والا تھا۔ میں نے اس سے بھی اپنا سوال دہرایا۔ وہ بولا:
"میرے بھی کئی نام اور روپ ہیں البتہ تم مجھے ایک سیاستدان
کہہ سکتے ہو ۔میرا کام لوگوں میں انتشار ڈالنا ہے اور طاقت پکڑنا ہے۔ جب تک زمین
پر فساد اور کھیتی برباد نہ ہو میرا گزارہ نہیں ہوتا ۔میں لوگوں کو وہ تخیل دیتا
ہوں جو ممکن نہیں اور جو ممکن ہے وہ میں
ہونے نہیں دیتا۔ میری زندگی لوگوں میں فساد سے ہے۔ میں لفاظی کا بڑا شائق ہوں اس
لفاظی کی جادوگری سے لوگوں کو اکٹھا کرلیتا ہوں۔ میں لوگوں سے ایسے تعلقات بناتا
ہوں کہ ایک شخص کو دوسرے کا علم نہیں رہتا۔ میں ایک سرمایہ دار کے سرمائے کو مختلف
لوگوں میں بانٹ دیتا ہوں اور ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ نمٹتا ہوں۔ میرے شور شرابے
سے لوگ خوف کھاتے ہیں اور یہ علم مجھے اس راستے نے سکھایا ہے جس کا میں مسافر
ہوں"۔
اتنا کہہ کر وہ پیچھے کو ہٹ گیا اور تیسرا سیاہ پوش جو میانہ قد،
بھرے جسم، سادہ مونچھوں اور بغیر داڑھی والا تھا اور چہرے پر سختی لئے ہوئے تھا
اکڑاتے ہوئے آگے بڑھا ۔ اس سے قبل کے میں اس سے کچھ پوچھتا وہ خود ہی بولنے لگا:
"میرے بھی کئی نام اور کئی اشکال ہیں۔ میں زورآور سیدھا سادہ بندہ ہوں۔ طاقت کے اداروں میں میں ہی
موجود ہوں۔ مجھے تم دیکھو گے کہ جہاں میں
نے اپنی جسمانی قوت کو منظم کرلیا ہے وہاں تحفظ قوم کے نام پر میں ایک محافظ ہوں،
خواہ میں فوجوں کا جرنیل ہوں خواہ میں تھانہ دار ہوں۔"
اتنا کہ کر وہ خاموش ہوا پھر ایک فاخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ پچھلے دو
قاصدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا:
"یہ دونوں میرے محتاج ہیں ۔جہاں انکی دال نہیں گلتی وہاں یہ
مجھے روزی دینے کے پابند ہیں، پھر میں ایک طوفان کیطرح ان کمزوروں پر مسلط ہوجاتا
ہوں جو ملکہ کے باغی ہوں اور خون جلا دینے اور گوشت کو تحلیل کردینے والے آلات کو
ان پر آزماتا ہوں۔اور جہاں میں غیر منظم ہوجاتا ہوں وہاں بطور بدمعاش و ڈاکو ہوں۔
کمزور کا حق دبانا اور لوگوں کو جبر و تشدد سے اپنا مطیع کرلینا میری خاصیت ہے۔
میرے وجود سے خون خرابہ ضرور مچا ہے لیکن مجھے یہ سب اس راستے نے سکھایا ہے جسکا
میں مسافر ہوں۔"
یہ کہہ کر وہ اسی طرح
اکڑاتا ہوا پیچھے کو ہٹا اور ایک قطار میں تینوں کھڑے ہوگئے اور تینوں بیک زبان
بولے:
"ہم میں سے کسی کے پیچھے آجا۔ کسی بھی راہ کو اختیار کر شاید
ہمارے گزر جانے کے بعد تو ہی ہمارا وارث ہو؟ شاید ہمارے گزر جانے کے بعد تو ہی
ملکہ کے خصوصی قرب کا حقدار قرار پائے؟ ورنہ ہمیں خدشہ ہے ہزارہ کے مسافر تجھے
روند دیں گے اور بے نام و نشان کردیں گے۔"
اتنا کہہ کر وہ تینوں فضا میں پرواز کرتے ہوئے واپس ملکہ ہزارہ کے
پاس چلے گئے اور باری باری ہزارہ کو کچھ کہنے لگے جس کی آواز مجھ تک نہ پہنچ سکی۔
میں اب اس کارروائی کو شوق سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی ہولناکی جاتی رہی تھی اور ان
راستوں کی کشش مجھے اپنی طرف بلا رہی تھی۔تینوں کی ملکہ سے بات ختم ہوئی تو ملکہ
مجھے سنجیدہ ہو کر بغور دیکھنے لگی۔ پھر اس کے انداز میں وہی مخصوص و دلفریب شوخی
اتر آئی اور اس نے ایک ادا سے تین سفید پوشوں کو مخصوص اشارہ کیا جس پر وہ فضا میں
پرواز کرتے ہوئے میرے پاس آگئے اور بیک زبان کہنے لگے:
" ہم اس ملکہ کے قاصد ہیں اور یہ راستے جن کو تم دیکھتے ہو ان میں سے تین صدر راستوں کے کامیاب علیحدہ علیحدہ
مسافر ہیں۔ ان راستوں پر چل کرہی ہم اس
ملکہ کے وصل کے قریب ترین پہنچے ہیں۔"
پھر ان میں سے ایک جو برنگ سفید و سرخ ،دبلا پتلا سر کے بال کم
رکھتا تھا آگے بڑھا اور میرے طرف دوستانہ
انداز میں ہاتھ بڑھایا۔ میں اب ان سے خوف و اجنبیت محسوس نہیں کر رہا تھا سو میں
نے ہاتھ ملا لیا اور اس کا ہاتھ مجھے بیحد نرم محسوس ہوا۔ وہ بولنے لگا:
"میرے کئی نام اور کئی اشکال ہیں۔ ہر جگہ اور دور میں مجھے
مختلف ناموں سے شکلوں کے مطابق یاد کیا جاتا ہے۔ البتہ میں انسانی جانوں کا سوداگر
ہوں۔ لوگ مجھے طبیب کہتے ہیں انسانوں کی جسمانی پریشانیوں کا مداوا کرنے میں میرا
رزق لکھا ہوا ہے۔ میں لوگوں کو ادویات دیتا ہوں، ادویات کو بناتا ہوں اور شفا خدا
دیتا ہے لیکن میرا رزق ادویات ساز سے لیکر مریض تک مقسوم ہے اور ہر جگہ سے شرح کے
اعتبار سے مجھے منافع ہے۔ بس لوگوں کے امراض میرا منافع ہیں اور انکا بیمار رہنا
ہی مجھے رزق دیتا ہے۔ میرے پاس لوگ بحث کم ہی کرتے ہیں اور اپنی پریشان حالی میں
ہر شئے مجھے دے جاتے ہیں۔ میں ہی سائنسدان بھی ہوں جب چاہتا ہوں افلاکی خبریں بنا دیتا ہوں جب
چاہتا ہوں زمینی خبریں بنا لیتا ہوں اور جب چاہتا ہوں دنیا کی حقیقت تبدیل کر کہ
پیش کر دیتا ہوں اور مجھ پر کوئی شک نہیں کرتا نہ ہی کوئی میری بات کی تصدیق و
مخالفت کرنے کی جسارت کرتا ہےحالانکہ میں
ایک سچ کے پیچھے سو جھوٹ چھپا کر پیش کرتا ہوں۔ میں بعض اوقات امراض کو پیدا بھی
کرلیتا ہوں پھر انہی کا معالج ہوکر دولت و عزت پاتا ہوں۔ مجھے یہ گر اس راستے نے
سکھائے ہیں جسکو میں نے منتخب کیا اور میں اسی کا مسافر ہوں۔"
یہ کہہ کر وہ پیچھے کو ہٹا اور دوسرا سفید پوش آگے کو بڑھا۔ نہ وہ
دبلا نہ موٹا تھا بلکہ درمیانہ تھا اور قد
بھی اسکا میانہ تھا۔ سر سے گنجا اور چہرے پر صرف ایک ہلکی سی مونچھ تھی ۔میرے پاس
آیا اور کہنے لگا:
"میرے بھی کئی نام اور کئی اشکال ہیں البتہ تم مجھے آئینی
ماہر یا انسانی حقوق کا علمبردار یا جج یا معاشیت دان کہہ سکتے ہو ۔مجھے ہر وقت یہ
فکر کھائے جاتی ہے کہ لوگوں کے حقوق تلف ہورہے ہیں اور میں اسکے لئے آواز اٹھاتا
ہوں اگر میں دیکھوں کہ مزدوروں کا حق مالک نہیں دیتے تو میں ان مالکوں سے جھگڑتا
ہوں اور اگر میں دیکھوں کہ عورتوں کا حق مرد مارتے ہیں تو مردوں سے جھگڑتا ہوں
لیکن یہ حقوق کا جھگڑا مجھے رزق دلواتا ہے ان کمزوروں سے جنہیں فطرت و قدرت نے
کمزور پیدا کیا ہے۔ میں انہیں سبز باغ دکھاتا ہوں ۔میں یوٹوپیا کے مفکر پیدا کرتا
ہوں اور اپنا رزق سیدھا کرتا ہوں ہر تحریک میں میرا حصہ ہے۔ جو حقوق سے منسلک ہو
میں سیاست کی بجائے بہبود کا علمبردار ہوں اور مجھے لوگ فرشتہ مانتے ہیں۔ میری
ریاکاری کی کمال اداکاری نے مجھے تخت ملکہ کے بہت قریب لاکھڑا کیا ہے امرا سے میرے
خاص تعلقات ہیں اور میں غریب و امیر کا وسیلہ بنتا ہوں اور یہ سب مجھے اس راستے نے
تعلیم کیا ہے جسکا میں مسافر ہوں۔"
یہ کہہ کر وہ واپس ہٹا اور پھر آخری سفید پوش،سفید رنگ وسفید ریش،
جسم درمیانہ قد دراز، ہاتھ میں کتاب لئے
گویا ہوا:
"میرے بھی ہزار نام اور شکلیں ہیں البتہ تم مجھے مذھبی پیشوا
کہہ سکتے ہو۔ لوگ جادو سے حفاظت ایمان کی حفاظت مسائل مذاہب اور اعتقادات کیلئے
میری طرف رجوع کرتے ہیں میں ان پانچوں میں ممتاز ہوں اور بغیر تخت کے دعوے کے تخت
پر حکم چلاتا ہوں۔ مجھے دیکھ کر انسانوں کی نفسیات میں ہلچل ہوجاتی ہے۔ میں کہیں
پادری کہلاتا ہوں تو کہیں پنڈت کہیں ملا ہوں تو کہیں درویش اور عامل لیکن میری یہ
دکانداری پراسرار علوم کے سر پر ہے۔ میں لوگوں کی آمدنیوں میں مفت کا حصہ دار ہوں
اور بچہ پیدا ہو یا مر جائے میں ہر صورت اپنا حصہ وصولتا ہوں۔ دین یا مذھب کا نام
مجھے صرف تحفظ دیتا ہے مزیدار بات یہ ہے کہ میں علم دین سے بے بہرہ ہوں۔ میں ہی
مریمؑ کنواری کے گستاخوں کا تعین کرتا ہوں میں ہی ناستک کا حکم دیتا ہوں میں ہی
مرتد کا فیصلہ کرتا ہوں۔ حکومتیں میرے سامنے عاجز ہیں اور میرے متبعین کے فساد سے
ہمارا بازار روشن ہے یہ اصول و قواعد مجھے اس راستے نے تعلیم کئے ہیں جس کا میں
مسافر ہوں۔"
پھر تینوں بیک زبان بولے:
"ہم میں سے کسی کے پیچھے آجا۔ کسی بھی راہ کو اختیار کر شاید
ہمارے گزر جانے کے بعد تو ہی ہمارا وارث ہو؟ شاید ہمارے گزر جانے کے بعد تو ہی
ملکہ کے خصوصی قرب کا حقدار قرار پائے؟ ورنہ ہمیں خدشہ ہے ہزارہ کے مسافر تجھے
روند دیں گے اور بے نام و نشان کردیں گے۔"
اتنا کہ کر وہ پرواز کرتے ہوئے واپس ملکہ کے پاس پہنچ گئے اور ملکہ
نے اس طلسم کے راستوں کو متحرک کر دیا کہ ایک سے ایک شاندار و دلکش راستہ کامیابی
کا اعلان کرتے ہوئے میرے آگے آتا اور میرے قدموں میں بچھتا چلا جاتا اور مجھے
پاپنی طرف پکاراتا اور کھینچنے کی کوشش کرتا۔ قریب تھا کہ میں کسی ایک پر قدم رکھ
ہی دیتا مگر سالوں کی ریاضت اور دنیا سے دوری اور قرب الہی نے مجھے بعض رکھا ۔ بالآخر
میں نے طلسم سے نظریں ہٹا لیں اور راستوں کو ٹھکرا دیا اور باآواز بلند
کہا:
"الٰہی ہمارے معبود"
اس بار بھی یہ الفاظ ملکہ نے سن لئے۔ اسکے چہرے پر ناگواری کے
آثار نمایاں ہونے لگے۔ اسکا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور وہ خوفناک شکل اختیار کرتی
چلی گئی۔ اسکا حجم بڑھنے لگا۔ اسکی کھال جگہ جگہ سے تار تار ہونے لگی اور جسم
گلی ہوئی ہڈیاں نمایاں کرنے لگا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہوش ربا دوشیزہ ایک آتش
سیاہ سے بنی ہوئی وہ چڑیل بن گئی۔ غیض و غضب میں پھنکارتی ہوئی اس نے اپنی گردن
لمبی کی اور اپنے دانتوں سے اس نے اپنے چھ کے چھ قاصدوں کے سر چبا ڈالے اور بآواز
بلند و خوفناک مجھ سے مخاطب ہوئی:
"تو کب تک مجھ سے جھگڑتا رہے گا؟ تیری شوخ چشمی کو میں کب تک
جھیلتی رہوں گی؟"
اسکے بعد ایک زوردار ڈکار
کے ساتھ اس نے اپنے منہ سے ہزاروں انسانی
ڈھانچے اور خون و گوشت باہر اگلا اور پھر بولنے لگی:
"تو کیا سمجھتا ہے؟ میں تجھے جانے دونگی؟ ہرگز نہیں۔ جو میرے
راستوں کا مسافر نہیں وہ برباد کردیا جاتا ہے ۔میرے ایک اشارے پر میرے چاہنے والے
تجھے زیر و زبر کردیں گے۔"
پھر وہ اپنے تخت سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک غیر انسانی چیخ کیساتھ
میری طرف اشارہ کیا۔ اس کی چیخ سن کر وہ دیوقامت ہشت پا جو آنکھیں بند کر کہ سویا
ہوا تھا جاگ گیا اور اسکی بڑی بڑی ہیبت ناک آنکھیں کھل گئیں اور وہ قہر آلود نظروں
سے مجھے دیکھتے ہوئے میری جانب بڑھنے لگا۔اسکے گرد چھائی ہوئی دھند میرے اردگرد
لپٹنے لگی۔ اس دھند میں ہر سرخ شعلہ بار آنکھ مجھے غصیلے انداز میں گھور رہی تھی۔ اور
بھی کئی خوفناک وجود نمودار ہوتے چلے گئے جو مجھ پر غضبناک ہورہے تھے ۔ ہشت پا
اپنی تمام تر دہشت اور اپنے بے پناہ حجم کے ساتھ میری طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کے
بازو طاقتور کوڑوں کی طرح میرے اردگرد پڑ رہے تھے جن سے زمین لرز جاتی۔ قریب تھا
کہ ایک بازو مجھ پر پڑ جاتا اور میرے پرخچے اڑا دیتا۔ دھند میں میری سانس اٹکنے
لگی مگر وہ بے رحمی سے میرے گرد لپٹتی ہی چلی گئی۔ ان میں موجود سرخ شعلہ بار آنکھیں
مجھ سے اس قدر قریب ہو گئیں کہ میں ان کی حدت اپنے جسم پر محسوس کرنے لگا۔ ہشت پا
اور اس پر سوار خوفناک چڑیل ملکہ ہزارہ میرے قریب آتے چلے گئے۔ میں نے ان سب کےبلاؤں
کے بیچ خود کو بیحد تنہا اور بے بس پایا۔ میری
مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا میں بے یار و مددگار تھا اور نہتا اور کمزور تھا۔بے
بسی و تنہائی کے سبب میری آنکھوں سے آنسو
جاری ہو گئے اوربے انتہاء بے بس ہو کر میں نے رب رحیم کی طرف توجہ کی اور پکارا:
"الٰہی ہمارے معبود ہم تو فقط تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف
تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہمیں سیدھا راستہ اپنے قرب کا ایسا دکھا جو اصل ہو جسکا
انجام صالحین پر ہو نہ کہ ان جیسا جو برباد ہوئے اور ہلاک کردئیے گئے۔"
اتنا کہنا تھا کہ خوفناک و دہشت زدہ چیخوں کا شور برپا ہوگیا دھند
چھٹ گئی۔ ملکہ اور اس کی تابع خوفناک مخلوقات میں کہرام مچ گیا۔ ان کی تمام رعونت
کافور ہو گئی اور یہ مجھے چھوڑ کر بدحواس ہو کر ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ اتنے میں
دو پروں والے سفید گھوڑے پر بابا صحرائی اڑتے ہوئے پوری شان و شوکت کے ساتھ نمودار
ہوئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک نورانی کوڑا تھا جسے وہ مسلسل چلاتے اور اس کی ایک ضرب
کی قوت اور دہشت کے آگے ہشت پا کے تمام بازو بھی حقیر اور ناتواں نظر آنے لگتے۔ ان
کے کوڑا چلانے پر ملکہ ہزارہ کی فوج میں کھلبلی مچ جاتی اور اپنی تمام تر طاقتوں
کے باوجود یہ ادھر ادھر بھاگنے لگتے۔ملکہ ہزارہ کے ساتھیوں کو زبردست نقصان
پہنچاتے ہوئے وہ اپنا نورانی کوڑا لے کر ملکہ ہزارہ پر مسلط ہو گئے۔ ان کے ایک
کوڑا لگانے پر ملکہ ہزارہ سخت اذیت میں مبتلا ہوجاتی اور ان سے بچنے کیلئے مختلف
روپ اختیار کرتی جاتی کبھی حسین ملکہ کا تو کبھی کسی چھوٹی معصوم بچی کا اورکبھی کچھ تو کبھی کچھ۔ طلسم کی مردہ بانہیں بابا
صحرائی سے اسکو نہیں بچا پا رہی تھیں نہ ہی اس کا کوئی فریب و دجل اس کے کسی کام آ
رہا تھا اور وہ مجھ سے زیادہ بے یار و
مددگار اور لاچار ہو گئی۔ ملکہ ہزارہ کو کرب و اذیت میں مبتلا کر کہ اور اسے خوب
سزا دے کر بابا میرے پاس آگئے اور کہنے لگے:
"میرے ساتھ آؤ"
میں ان کے ساتھ سوار ہوگیا اور ہمارے گھوڑے نے اڑان بھرنے کیلئے
اپنے شاندار پر پھیلا دیے کہ اتنے میں ملکۂ ہزارہ کی زخمی مگر گرجدار آواز مجھے
سنائی دی:
"میں ۔۔۔ میں مسلسل تیرا پیچھا کرونگی ۔۔۔ اے میرے دشمن تیری
وجہ سے جو اذیت مجھے جھیلنا پڑی اسکا بدلہ لونگی ۔۔۔ میرے گماشتے تجھ پر تیرا
راستہ مشکل کردیں گے اور میں اپنے ہاتھوں سے تیرا ایمان میں نوچ کر لے
جاؤنگی"
طلسم فتح کر کہ اور ملکہ ہزارہ کو رسوا و شکست سے دوچار کر کہ میں یا الٰہی یا الٰہی کرتا ہوا بابا کے
ساتھ فضاؤں میں اڑتا چلا گیا اور پیچھے سے
مسلسل غیض و غضب کی آوازیں آتی رہیں یہاں تک کہ ہمارا فضائی راستہ ایک جہان کی
سرحدوں پر پہنچا جس کے اول ایک وادی تھی ۔ بابا وہاں رک گیا اور کہنے لگے:
"بس میں یہیں تک تمہیں پہنچا سکتا تھا کیونکہ اس سے آگے تم
بآسانی جاسکتے ہو دیکھو سیدھا یہی راستہ لو یہاں تک کہ 'کوۂ زر' پر موجود 'شہر
کنز' کو پا لو۔ یہ راستہ اندیشہ ناک نہیں ہے اور اس میں خوف نہیں ہے۔ ملکۂ ہزارہ
کا یہاں اس طرح کا دخل نہیں ہے جیسا اسکی پیچھے سلطنت تھی لیکن اسکے کارندے ان
وادیوں میں پھر رہے ہیں اسلئے اپنا راز کسی سے بانٹنا نہیں بس اپنے کام سے کام
رکھنا ۔"
اتنا کہ کر بابا میری نظروں سے خوشبوؤں میں تحلیل ہوکر رو پوش ہوگئے۔
؎
فراز عادل
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں