بدھ، 20 جولائی، 2016

سیور - باب اول قسط 6 : منزل علم

sayoor-6-manzil-ilm
حنانہ کے ساتھ لہکتے گیت گاتے رات کب گزر گئی کچھ معلوم ہی نہ ہوا۔ صبح طلوع ہونے لگی تو حنانہ خاموش ہو گیا۔ موتی پرندے بن کر اڑنے لگے اور ہر پرندے کے اڑنے پر یوں معلوم ہوتا گویا دل پر رکھے بوجھ اترے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ میں بالکل ہلکا پھلکا ہو گیا اور خواہشات سے خالی ہو گیا۔ میں نے محبت سے اپنے محسن حنانہ پر ہاتھ رکھا جس نے مجھے زندگی کا ایک نہایت اہم درس دیا تھا اور مجھے پابند کرنے والی تمام زنجیروں کو توڑ کر آزاد کر دیا تھا۔ پھر اس حسین وادی آمین پر ایک بار بھرپور نظر ڈال کر میں آگے کو بڑھ گیا۔ سہ پہر کے قریب میں وادی آمین کے اختتام پر پہنچ گیا جہاں میں نے ایک بہت بڑے قلعہ کو اپنے سامنے پایا۔ قلعہ کے حفاظتی انتظامات دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
میں نے بابا صحرائی کے ساتھ زمین کی مختلف جگہوں کے سیر کی تھی جس میں کئی تاریخی عظیم الشان قلعہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایسے خطوں سے بھی ہمارا گزر ہوا جو انسانی آنکھ اور نقشوں سے اوجھل ہیں مگر وہاں طاقتور قومیں بستی ہیں اور ان کی فصیلیں اور قلعہ بیحد بڑے اور مضبوط ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی اس قلعہ کی حجامت اور پہرے کا عشر عشیر تک نہ تھا۔ اس قلعہ کے دو سو چھیاسی دروازے تھے اور ہر دروازہ اس قدر بڑا تھا کہ اس پر اسی فرشتے بطور محافظ کھڑے تھے۔ ہر فرشتہ سرخ رنگ کی چوغہ نما وردی پہنے تھا۔ وردی پر سنہرے رنگ کا شاندار کمربند بھی تھا جس میں شمشیر بامیان، خنجر اور ایک کوڑا لگا ہوا تھا۔ ہر ایک سر پر ایک پگڑی نما کلاہ بھی تھی۔ ان کی آنکھیں ایسی شعلہ بار تھیں کہ ان سے نظریں ملانا اپنے اندر ایک بڑا معرکہ تھا اور ان کے جسم گویا مسلسل چلتی ہوئی بجلی کے بنے ہوئے تھے۔ الغرض یہاں اجازت کے بغیر داخلہ ممکن ہی نہیں تھا۔ میں اگرچہ اجازت یافتہ تھا مگر اس زبردست انتظام کی وجہ سے کچھ گھبراتے ہوئے اندر جانے لگا۔