حنانہ کے ساتھ لہکتے گیت گاتے رات کب گزر گئی کچھ معلوم ہی
نہ ہوا۔ صبح طلوع ہونے لگی تو حنانہ خاموش ہو گیا۔ موتی پرندے بن کر اڑنے لگے اور
ہر پرندے کے اڑنے پر یوں معلوم ہوتا گویا دل پر رکھے بوجھ اترے چلے جاتے ہیں۔ یہاں
تک کہ میں بالکل ہلکا پھلکا ہو گیا اور خواہشات سے خالی ہو گیا۔ میں نے محبت سے
اپنے محسن حنانہ پر ہاتھ رکھا جس نے مجھے زندگی کا ایک نہایت اہم درس دیا تھا اور
مجھے پابند کرنے والی تمام زنجیروں کو توڑ کر آزاد کر دیا تھا۔ پھر اس حسین وادی
آمین پر ایک بار بھرپور نظر ڈال کر میں آگے کو بڑھ گیا۔ سہ پہر کے قریب میں وادی
آمین کے اختتام پر پہنچ گیا جہاں میں نے ایک بہت بڑے قلعہ کو اپنے سامنے پایا۔ قلعہ
کے حفاظتی انتظامات دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
میں نے بابا صحرائی کے ساتھ زمین کی مختلف جگہوں کے سیر کی
تھی جس میں کئی تاریخی عظیم الشان قلعہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایسے خطوں سے بھی
ہمارا گزر ہوا جو انسانی آنکھ اور نقشوں سے اوجھل ہیں مگر وہاں طاقتور قومیں بستی
ہیں اور ان کی فصیلیں اور قلعہ بیحد بڑے اور مضبوط ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی اس
قلعہ کی حجامت اور پہرے کا عشر عشیر تک نہ تھا۔ اس قلعہ کے دو سو چھیاسی دروازے
تھے اور ہر دروازہ اس قدر بڑا تھا کہ اس پر اسی فرشتے بطور محافظ کھڑے تھے۔ ہر
فرشتہ سرخ رنگ کی چوغہ نما وردی پہنے تھا۔ وردی پر سنہرے رنگ کا شاندار کمربند بھی
تھا جس میں شمشیر بامیان، خنجر اور ایک کوڑا لگا ہوا تھا۔ ہر ایک سر پر ایک پگڑی
نما کلاہ بھی تھی۔ ان کی آنکھیں ایسی شعلہ بار تھیں کہ ان سے نظریں ملانا اپنے
اندر ایک بڑا معرکہ تھا اور ان کے جسم گویا مسلسل چلتی ہوئی بجلی کے بنے ہوئے
تھے۔ الغرض یہاں اجازت کے بغیر داخلہ ممکن ہی نہیں تھا۔ میں اگرچہ اجازت یافتہ تھا
مگر اس زبردست انتظام کی وجہ سے کچھ گھبراتے ہوئے اندر جانے لگا۔
خوشقسمتی سے مجھے کوئی روک ٹوک نہ کی گئی اور میں اندر
بڑھتا چلا گیا۔ پہرے دار فرشتوں کے قریب سے گزرنے پر معلوم ہوا ان کے وجود سے
گڑگڑاہٹ جیسی تسبیحات صادر ہوتی ہیں۔ میں بھی حمد و ثناء کرتے ہوئے چلتا چلا گیا
اور اس چوڑے فولادی حصار کو پار کر کہ جب اندرون داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں ایک
بلند و بالا اور کشادہ تین منزلہ محل ہے جو مکمل الماس یعنی ٹھوس ہیرے کا بنا ہوا
ہے۔ یہ محل حسن و آرائش میں لاجواب معلوم ہوتا اور اس کی جگمگاہٹ نظروں کو خیرا
کرتی تھی۔ محل کا صدر دروازہ مکمل کھلا ہوا تھا۔ میں اس سے اندر داخل ہو گیا تو
پہلی منزل کے دروازے کو اپنے سامنے پایا جس پر خوبصورت خطاطی میں "الف"
لکھا تھا۔ اسے بھی عبور کیا اور منزل میں داخل ہوا تو ایک عجیب ہی دنیا کو آنکھوں
کے سامنے پایا۔
یہاں ہر طرف لوگ ہی لوگ چل پھر رہے تھے۔ کوئی زمانہ قبل
اسلام کی تہذیبوں کا لباس پہنے گھوم رہا تھا تو کوئی ایسے لباس میں پھرتا تھا جس
کی تہذیب ابھی نظر مطالعہ سے نہیں گزری۔ یہاں سنگ یشب کی بنی بڑی مہراب دار
الماریاں بھی تھیں جو بڑی قرینے سے سجی ہوئی تھیں جن میں سے ہر طوق پر کسی نہ کسی
علم کا نام لکھا تھا اور ہر طوق میں ایک پیالہ روشن آب سے لبالب بھرا پڑا تھا۔ میں
نے لوگوں کو دیکھا کہ ایک پیالے میں ہاتھ ڈالتے اور آنکھیں بالکل بند کر لیتے۔ پھر
کچھ دیر کے بعد آنکھیں کھول کر آگے بڑھ جاتے۔ مزید تعجب اس بات پر ہوا کہ ان کے
ہاتھ ڈالنے سے پیالے کا پانی مکدر نہ ہوتا اور جو قطرات چھلک کر باہر آتے وہ فرش
پر گرنے سے پہلے ہوا میں تحلیل ہو جاتے مگر پیالے میں اس آب روشن کی معمولی سی کمی
بھی واقع نہ ہوتی۔ میں بھی اپنے پسندیدہ علوم کے پیالے تلاش کرنے کی نیت سے چل
پڑا۔ توقع کے برخلاف، دائیں بائیں اور آگے پیچھے الغرض ہر جگہ سے مختلف تہذیب کے
لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا گزرنا اب بالکل عجیب معلوم نہیں ہو رہا تھا۔ یوں لگا
جیسے میں بہت جلد ہی اس جگہ اور اس کے اطوار سے مانوس ہو گیا ہوں۔ اپنی چاہت کے
علوم تلاش کرنے کی خاطر میں چلتا چلا گیا یہاں تک کہ شرقی سمت چند علوم کے طاق
ایسے ملے جو میرے لیے دلچسپ بھی تھے اور میرے اندازے کے مطابق ضروری بھی۔ پیالے کے
پاس کھڑے ہو کر میں نے اردگرد کے لوگوں کو ایک بار مزید غور سے دیکھا۔ معلوم ہوا
کہ پیالے میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے کوئی خصوصی اقدام نہیں سو اللہ کا نام لے کر میں
نے بھی پیالے میں ہاتھ ڈال دیا۔
پیالے میں ہاتھ پڑتے ہی میری آنکھیں بغیر ارادے کے بند ہو
گئیں اور میں نے محسوس کیا کہ علم اپنی ابتدا سے لیکر انتہاء تک میری روح میں
سرائیت کرتا جا رہا ہے۔ جب یہ عمل مکمل ہو گیا تو میں نے بغیر ارادہ آنکھیں کھول
دیں اور یہاں موجود لوگوں کی پراسرار حرکات سے میں بخوبی واقف ہو گیا۔ گویا معلوم
ہوا کہ تمام علوم اپنی اصل شکل میں یہاں موجود ہیں اور جن کو یہاں تک رسائی نہ ہو
ان کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں کہ یہاں کے رہائشیوں سے مستفید ہوں اور دنیا میں
نام کریں کیونکہ جس کے اندر کوئی بھی علم ابتداء سے انتہاء تک سرائیت کر جائے وہ
پھر دنیاوی شہرت کا متمنی نہیں رہتا۔ یہاں اور بھی کئی علوم میری دلچسپی کے تھے جن
سے میں لطف اندوز ہوتا گیا یہاں تک کہ اس تالار میں ایک شور سا پیدا ہوا۔
تالار کے رہائشی سب چھوڑ چھاڑ کر اس طرف متوجہ ہو گئے جہاں
سے غلغلہ اٹھا تھا۔ دنیا جہان کا علم شفاف پیالوں میں محض انگلیاں تر کرنے کا
منتظر تھا اور لوگ اس جذاب و منہمک کر دینے والے فعل سے اس طرح بے فکر ہو کر شورش
کی طرف راغب ہوئے تو مجھے بھی اندازہ لگانے میں زیادہ وقت نہ لگا کہ یہاں ہلچل کسی
غیر معمولی واقعہ کا پیش خیمہ تصور کی جاتی تھی۔ چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ مل
کر تالار کے وسطی سمت چل پڑا۔
ایک مخصوص فاصلے تک پہنچ کر ہم رک گئے اور دیکھا کہ غول در
غول خادمان کی صفیں تالار میں داخل ہو رہی ہیں۔ خادمان کی اتنی کثیر تعداد اور ان
کا مؤدبانہ انداز دیکھ کر میں چوکنا ہو گیا کہ یقیناً کسی بلند مرتبہ شخصیت کی آمد
ہے۔ پر شوق و پر تجسس نظروں سے خادمان کے اس منظم غول کو داخل ہوتے دیکھ ہی رہا
تھا کہ اس جماعت کا نصف حصہ تالار کے اندر داخل ہو گیا اور خادمان کے جھرمٹ کے
بیچوں بیچ ایک نورانی شکل بزرگ نمودار ہوئے جن کے سر پر ایک بڑی سی پگڑی تھی جس پر
تاج لگایا گیا تھا اور ایک سیاہ رنگ کی عبا زیب تن کیے ہوئے تھے جس میں جامن رنگ
کے پھول بوٹوں کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ قافلے کی حرکات و سکنات سے معلوم ہوا
کہ بزرگ اس منزل سے دوسری یعنی بالائی منزل
کا قصد رکھتے ہیں۔ مگر سیڑھیوں پر پہنچنے تک شاید انہوں نے مجمع کا بے انتہاء
اشتیاق بھانپ لیا لہذا وہیں ٹھہر گئے اور چہرا تالار کے شرکاء کی طرف پھیرا۔ ایسے
میں خادمان نے ان کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ وہ گویا ہوئے:
"اللّٰہ رب العزت کی تعریف ہے جس نے حروف و اصوات کو اپنے
مخفی اسما بنایا اور نہیں کوئی شخص کلام کرتا لیکن اسی کی تسبیح کرتا ہے اور نہیں
کوئی چیز آواز پیدا کرتی لیکن اسی کا نام پڑھتی ہے۔ میں غوث محمد ہوں اور نا غوث
نہ محمد ہوں بلکہ یہ نام ہے جو میرے والدین نے رکھ دیا اے لوگو! اس تالار میں بعض
اسرار ہیں جن کی خبر تمہیں نہیں ہے پس وہی اسکا حاصل ہیں باقی سب ان کی وجہ سے ہے
پس جویندہ یابندہ والسلام"
تقریر سن کر سامعین کے چہروں پر بشاشت پھیل گئی۔ یقیناً یہ
مخفی علوم کے خزانوں میں سے ایک گوہر نایاب تھا جو بزرگ غوث محمد کے ذریعے عنایت
ہوا۔ لوگ شکریہ ادا کرتے ہوئے منتشر ہونے لگے مگر میں ان کی طرف بڑھ گیا۔ خادمان کے
جھرمٹ کے باعث ان تک پہنچنا مشکل نہیں تھا لہذا میں جس قدر قریب پہنچ سکتا تھا
پہنچا اور ان کو مخاطب کر کہ کہا:
"یاسیدی! میں اس تالار کے اسرار جاننا چاہتا ہوں کیا آپ میری رہنمائی کریں گے؟"
"یاسیدی! میں اس تالار کے اسرار جاننا چاہتا ہوں کیا آپ میری رہنمائی کریں گے؟"
بزرگ نے مجھے بغور دیکھا۔ مجھے ایسا
محسوس ہوا کہ میں نے اس طرح بلا اجازت مخاطب کر کہ بے ادبی کی ہے اور یا تو اب وہ
برہم ہو جائیں گے یا بغیر جواب دیے چلے جائیں گے۔ مگر میری خوش نصیبی کہ ان کے
چہرے پر غصہ یا سختی کے بجائے مسکراہٹ آ گئی۔ انہوں نے خادمان کو ایک مخصوص اشارہ
کیا جسے پا کر انہوں نے مجھ سے ان تک کا راستہ صاف کر دیا اور وہ سیڑھیاں اتر کر
میرے پاس آ گئے اور کہا:
"میرے دوست شیخ دانیال سے ملو جن سے
ملاقات کا راستہ اسی تالار میں پوشیدہ ہے۔"
"تالار میں کہاں؟" میں نے جلدی
سے پوچھا۔
وہ میری عجلت پر دوبارہ مسکرائے اور کہا:
"تالار کی انتہائی مغربی سمت آخری طوق میں جس پر علم الحقائق درج ہے وہاں چلے جاؤ اور اپنا ہاتھ پانی میں پھیلاؤ یہاں تک کہ تم خود کو ایک راستے کا مُسافر پالو۔۔۔ مگر۔۔۔"
"تالار کی انتہائی مغربی سمت آخری طوق میں جس پر علم الحقائق درج ہے وہاں چلے جاؤ اور اپنا ہاتھ پانی میں پھیلاؤ یہاں تک کہ تم خود کو ایک راستے کا مُسافر پالو۔۔۔ مگر۔۔۔"
"مگر؟" میں نے اس بار کچھ
محتاط لہجہ اختیار کیا۔
"مگر خطرات بہت ہیں۔۔۔" ان کے
انداز سے میں سمجھ گیا کہ یہ کوئی معمولی خطرات نہ ہوں گے جنہیں اہمیت نہ دی جائے۔
" قبلہ خطرات سے بچنے کا کوئی حل؟"
میں نے مؤدبانہ انداز میں استفسار کیا جس پر انہوں نے ایک شیشہ کی بوتل جس میں
پانی چمک دمک رہا تھا نکال کر دی اور کہا:
"عزیزی دانیال تک لیجانے والے
راستوں کی مشکلات کے حل کو اتنا کافی ہے۔ پس جب کسی مسئلہ کو برادشت سے باہر دیکھو
تو اسکو کھولنا اور ایک قطرہ فضا میں آزاد کر دینا۔ لیکن خبردار کسی پر رحم کھا کر
اسکو گنوا نہیں دینا ورنہ واپس نہیں آسکو گے اور نہ ہی منزل تک جا سکو گے۔"
میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ بوتل ان
سے لے کر اپنے پاس کمر بند میں اچھی طرح لگا لی اور اجازت طلب کی۔ غوث محمد دوبارہ
اپنے خادمان کے جھرمٹ میں چلے گئے اور بالائی منزل کو قصد کر لیا جبکہ میں چلتے
ہوئے غربی جانب بڑھنے لگا۔ تالار کے مغرب میں جو علوم و فنون کے طاق نظر سے گزر
رہے تھے ان میں کوئی نجوم پر تھا تو کوئی ریاضی پر، کوئی کیمیا پر تھا تو کوئی
سیمیا پر۔ خواہش ہوئی کہ ان سب سے علیحدہ علیحدہ سیراب ہوتے ہوئے چلا جائے مگر
تالار کے اسرار اس سے برتر تھے لہذا میں تیزی سے بڑتھا چلا گیا یہاں تک کہ چلتے چلتے میں انتہائی مغربی سمت پہنچ گیا جہاں
ایک بڑی کھڑکی کے پاس طاق نصب تھا۔ وہ کھڑکی غالبًا آبنوس کی لکڑی سے بنی ہوئی تھی۔
میں نے اس سے جھانکا تو مختلف مبارک لوگ تھے جو نماز ادا کررہے تھے اور بعض اپنے
پاس موجود نعمتوں میں سے خرچ کررہے تھے اور انکے پاس شہدِ شیرین کے جام تھے جو وہ
پیتے بھی تھے اور بانٹ بھی رہے تھے۔ عجب خوش کن نظارہ تھا کہ دل ہوا اس بابرکت اور
پر رونق محفل کا حصہ بنا جائے مگر میں نے اس طاق مطلوب کیطرف توجہ دی اور اپنا
ہاتھ خوب پھیلا کر اس روشن پانی میں ڈال دیا۔ میری آنکھیں بند ہوتی گئیں اور میری
زبان سے یہ دعا صادر ہوئی
اَللّٰھُمَّ اَرِنَا حَقَائِقْ الاَشِیْاء کَمَا
ھِیَ (اے خدا
مجھے اشیا کی حقیقت دکھا جیسی کہ وہ ہے)
اس
کے بعد میں یوں بیخود ہوتا چلا گیا گویا ہر قید و بند سے دور جارہا ہوں۔
؎ فراز عادل
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں