پچھلی اقساط کا خلاصہ: میں، محمد عمر، بائیس سالہ نوجوان جو
سچ جاننے اور اپنے سوالات کا جواب پانے کیلئے اپنی زندگی وقف کر چکا تھا۔ دو سال
پہلے ایک عجیب واقعہ سے دوچار ہوا کہ رات سو کر اٹھا اور خود کو ایک صحرا میں پایا
جہاں میری ملاقات ایک مرد بزرگ سے ہوئی اور ناقابل یقین چیزوں کو دیکھا اور جانا۔ پھر
واپس اپنے گھر لوٹا دیا گیا اور اس واقعہ کو محض ایک خواب سمجھ کر فراموش کر بیٹھا۔
پھر دو سال تک اپنے سوالات کے جواب در در ڈھوںڈ کر عاجز آ گیا تو دوبارہ انہی بزرگ
کے پاس پہنچا دیا گیا مگر اس بار ہماری ملاقات کا ٹھکانہ ایک برف زار تھا۔ اب آگے
پڑھیں۔
(سیور یعنی سیر کا اصل آغاز اب سے ہے البتہ پچھلی دو اقساط
پڑھنے کے لائق ہیں اور ان کے لنکس کمنٹس میں موجود ہیں۔)
اس برف زار میں 'یقین کے نخلستان' جیسا نعمت کدہ نہیں تھا
(یقین کے نخلستان کے بارے میں جاننے کیلئے پہلی قسط پڑھیے)۔ یہاں ہر روز ایک مخصوص
وقت پر ہمارے برف کے بنے گھر کی برفیلی زمین کے نیچے دو گہرے دھبے سے پڑ جاتے۔ میں
انہیں کھودتا تو دو درمیانے حجم کی سرمئی مچھلیاں اندر سے تڑپتی ہوئی برآمد ہوتیں۔
پھر آگ جلانے کی مشقت کرتا اور انہیں بناتا۔ ابتداء میں بابا کے حکم پر دونوں
مچھلیاں میں ہی کھا لیا کرتا کہ بس یہی دن بھر کی خوراک ہوتی اور اس کے سوا پورے
دن کچھ اور میسر نہ آتا۔ حالانکہ صحرا کے برخلاف یہاں کچھ جانور بھی نظر آتے مگر
وہ ہمارا رزق نہیں تھے۔ شمس و قمر کی گردش کے ساتھ مجھ میں کچھ تحمل آتا گیا تو
خوراک اور کم کر دی گئی۔ اب بابا ایک مچھلی استعمال کرتے اور میں بھی ایک پر اکتفا
کرتا۔ اس سے قبل بابا کی خوراک کیا رہی میں اس سے لاعلم ہوں کہ میں نے انہیں کسی
نعمت سے لطف اندوز ہوتے نہیں دیکھا۔ پھر ایک صبح بابا نے سفر کا حکم دیا۔