ہفتہ، 14 مئی، 2016

سیور - باب اول قسط نمبر 2: آخری کوشش

آج تیار ہوتے ہوئے میری حرکات میں وہ تیزی ہرگز نہ تھی جو دو سال پہلے تک میرے در و دیوار دیکھنے کے عادی تھے۔ اب ہاتھ کچھ سست چلتے تھے، دل کو جبراً منانا پڑتا تھا، قدم گھسیٹنے پڑتے تھے۔ دو سال! جی ہاں۔ دو سال ہو چکے تھے اس خواب کو دیکھے۔۔۔ بابا صحرائی۔۔۔ یقین کا نخلستان۔۔۔ جس کی سیر کے بعد میرے اگلے کئی دن نہایت تکلیف دہ گزرے۔ کیا آشنا کیا نا آشنا، میں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اپنا قصہ بتاتا۔ نتیجہ؟ کوئی روبرو ہی ہنس دیتا اور کوئی جانے کے بعد۔ کسی نے چند روز آرام کرنے کا مشورہ دیا تو کسی نے اچھے طبیب سے رجوع کا۔ حتی کہ لوگوں کی منطقی باتیں اور دلائل سن کر مجھے یقین آ ہی گیا کہ یہ محض ایک خواب ہی تھا۔ ہاں مجھے اب تک وہاں کی ہوا یاد تھی۔۔۔ ہاں بابا کی ضیافت کا ذائقہ اب تک میری زبان پر تازہ تھا۔۔۔ ہاں نخلستان کا کبھی نہ گرم ہونے والا پانی آج بھی کہیں میرے اندر بار بار بھڑکنے والی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں مدد کرتا۔۔۔ اور ہاں۔۔۔ بابا کے پڑھے اشعار۔۔۔ آج بھی انہیں یاد کر کہ ناقابل بیان سرور ملتا۔ مگر ان سب باتوں سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے؟ خواب جتنے بھی اصلی لگیں خواب ہی ہوتے ہیں۔ خرد نگر میں یقین کے نخلستان کی کوئی جگہ نہیں تھی اور میں دانش کا سودائی تھا۔ ایسی باتیں مجھے واقعی زیب نہیں دیتی تھیں۔ بس صحرا کا تذکرہ تک میں نے خود پر حرام کر لیا۔
پھر دو سال مستقل میں اتنا چلا کہ ویسے کئی صحرا پار ہوتے تھے۔ کون سا در تھا جو میری پر جستجو کھٹک سے محفوظ رہا ہو؟ علم و دانش کے بلند و بالا نام اور ان کے مسکن میرے گھر کی دیواروں پر چسپاں تھے۔ کوئی علمی محفل ہو یا کوئی تقریر و مباحثہ، میری شرکت وہاں ایسے ہی لازم تھی جیسے زندگی کیلئے مقصد۔ تمام مجالس علمی میرے نام سے خوب واقف ہو چکے تھے اور ہر محفل کا پہلا دعوت نامہ مجھے ہی بھیجا جاتا۔ ان دو سالوں میں دنیا کے ہر فلسفے اور خیال کے لوگوں سے میں ملا اور انہیں سمجھا۔ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے میں نے تائید میں سر بھی خوب ہلایا مگر سچ کہوں تو ہر شرکت کے بعد دل بدظن ہوتا چلا جاتا۔ علم و ترقی کے نام پر عجب تماشہ لگا ہوا تھا۔ کہیں ایک مشہور یونانی اپنے دیس کے فلسفے کی تمام تر حماقتوں کے ساتھ جلوہ افروز تھا جس نے دنیا سے دنیا کی روح نکال کر اسے بے جان کر دیا تھا۔ کہیں کوئی اپنے مورث اعلی کو لنگور اور اس عقیدے کو علم کی معراج سمجھ کر معاشرے کو جہل کی پستیوں میں دھکیل رہا تھا۔ میں اکثر سوچا کرتا کہ یہ بقیہ ہلتے سر بھی میری طرح مجبوراً حرکت پذیر ہیں یا میں واقعی حماقت زدہ ہجوم میں گھرا بیٹھا ہوں۔ دو سال کے تجربے اور مشاہدے کے بعد افشائے راز ہوا کہ دونوں قیاس ہی اپنی اپنی جگہ درست تھے۔
میں اتنا ضرور سمجھ چکا تھا کہ جن لوگوں سے مجھے جواب کی امید تھی ان سے درست سوال کی امید لگانا بھی پرلے درجے کی غلط فہمی تھی۔ ان کی نظر اس قدر تنگ تھی کہ ظاہر بھی مکمل نہ سمجھ پاتے کجا یہ کہ باطن پر کبھی گفتگو کرتے۔ نیز اعتراف ہی کر لیتے تو میں ان کی علمی دیانت کا قائل ہو جاتا مگر حقائق کو یکسر مسترد کرنا اور 'کیا، کیوں اور کیسے' کو اپنی مرضی اور تخیل سے گھڑنا اور پھر ان پر فریبی منطق و استدلال سے مہر لگانا میرے نزدیک ناقابل معافی جرائم تھے۔ مگر میرے پاس اس کے سوا اور چارہ بھی کیا تھا کہ ان خود ساختہ جوابات میں سے ہی کچھ سچ چھان لوں۔ ہاں مانتا ہوں کہ جتنا بھی باریک نتھارا برتن میں کچرا ہی آیا۔ مگر۔۔۔ اور کیا ذریعہ تھا میرے پاس؟ اور کون سا راستہ تھا؟؟ اس سفر نے میرے دوست مجھ سے جدا کر دیے تھے۔ عزیز مایوس ہو چکے تھے اور کوئی بھی ایسا نفس باقی نہ تھا جس کی طرف پلٹا جاتا سو چلتے رہنا ہی واحد چارہ تھا۔
تیاری مکمل کر کہ گھر سے نکل پڑا۔ زندگی کا شور اب برا  لگتا تھا کہ اس کی بے خبری اور بے فکری قابل مذمت تھی۔ سورج سے حسد ہوتا تو چاند سے شرمندہ۔ بس ایک ہوا تھی جو اپنے ساتھ کچھ امید کی تازگی لاتی، کچھ بہلا پھسلا دیتی۔ بس میں بیٹھ کر سارے راستے اپنے اپنے کام میں مگن حقائق کی فکر سے کوسوں دور لوگوں کو دیکھتا اور ان پر ترس کھاتا منزل پر پہنچا۔ منزل کیا تھی بس ایک اور دھوکہ تھا جو نشہ آور دوا کی طرح خود کو ہر کچھ دیر بعد دینے کی عادت ہو چکی تھی۔ حسب توقع دوسروں کی کامیابوں کو اپنا کارنامہ پیش کر کہ دھاک بٹھانے سے آغاز ہوا۔ یہ سب سے آزمودہ حربہ تھا جسے یہاں ہر کوئی لازمی استعمال کیا کرتا تھا۔ ایک بار انسان مرعوب ہو جائے تو سوال کرنے کی ہمت ختم ہو جاتی ہے۔۔۔ پھر غلط کو غلط سمجھنا اپنی غلطی لگتا ہے۔۔۔ لہذا سب سے پہلے شرکاء کو خوب مرعوب کیا گیا۔ پھر مقرر نے کہانی بننی شروع کی۔ ایک ایسی کہانی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق تو نہیں تھا البتہ یہ سننے میں اس قدر مسحور کن تھی اور سنانے والے کا علمی دبدبہ اس قدر بیٹھ چکا تھا کہ سامعین بے خودی کی سی کیفیت میں واہ واہ کرتے، تائید میں سر ہلاتے اور جب کوئی نیا سا تخیل سامنے آتا تو جھوم ہی اٹھتے۔ کہانی کا کُل خلاصہ یہ تھا کہ دنیا ایک حادثے کا نتیجہ ہے لہذا نہ اس کا کوئی مقصد ہے نہ ہی بنی انسان کا۔ الغرض اس فلسفے کے مطابق کتے بلی اور انسان میں کوئی خاص فرق ہی نہ تھا۔ میں احتجاج کرنا چاہتا تھا مگر ہمت نہ پڑی۔ ارد گرد مسحور مقلدین موجود تھے جو ذرا اختلاف پر میری بوٹیاں نوچ سکتے تھے۔ بہتری اسی میں تھی کہ خاموشی سے سنا جائے، جب زیادہ تالیاں بجیں تو دو چار پیٹ لی جائیں اور تقریر ختم ہونے کا انتظار کیا جائے۔ خدا خدا کر کہ اس بے بود کہانی کا اختتام ہونے لگا مگر اس سے پہلے مجھ سے ایک شدید غلطی سرزد ہو گئی۔۔۔ میں ہنس پڑا!
قصور میرا نہیں تھا۔ تقریر سے عاجز ہو کر دماغ پر نیند کے کچھ بوجھل پردے سے پڑ گئے تھے۔ ان کے پار جب دیکھنے کی کوشش کی تو اسٹیج پر ایک لمبی سی دم والا لنگور کودتا پھاندتا اور 'کھی کھی' کرتا پایا۔ بس نکل گئی ہنسی۔ البتہ یہ معصوم سی ہنسی علمی محافل سے میرا ناطہ ختم ہونے کا پیش خیمہ ثابت ہونے والی تھی۔ ہال میں سناٹا چھا گیا۔ بے رونق آنکھیں میکانکی انداز میں میری طرف اٹھتی چلی گئیں۔ پھر اسٹیج سے 'گستاخ' کا ایک اعلان ہوا اور سب مجھ پر پل پڑے۔ کوئی دھکے دے رہا تھا تو کوئی طعنے۔ کسی نے جاہل کہا تو کسی نے علم دشمن۔ چند منٹ کے اس ہنگامہ خیز معرکے میں ان علمی اشخاص سے میں نے جو کچھ سنا وہ قلم بند کرنا ممکن نہیں۔ البتہ آخری دھکا مجھے جس شخصیت نے دیا اس نے پچھلے ماہ 'رواداری، برداشت، انسان دوستی و احترام' وغیرہ جیسے موضوعات پر کم و بیش دس لیکچر دیے تھے جن میں سے پانچ میں میں خود بھی بطور سامع شریک تھا۔
گھر واپس آ کر صوفے پر نیم دراز ہوا تو دو سال کی تمام تھکاوٹ ایک ساتھ امڈ آئی۔ ہر ہر جوڑ سے ٹیسیں نکلتی محسوس ہوئیں۔ مگر رسوائی کی جو تکلیف تھی وہ سب پر حاوی تھی۔ جواب تو کیا ہی ملنے تھے جس مقام پر اتنے عرصے میں پہنچا تھا ایک لحظہ میں اس سے نیچے گرا دیا گیا۔ آج بابا صحرائی بہت شدت سے یاد آ رہے تھے۔ میں نے ان سے اور بھی کئی سوال پوچھے تھے۔ ہماری اور بھی کئی باتیں ہوئی تھیں۔ ایک دو جگہ میں لا ابالی پن میں ہنس بھی دیا تھا مگر ان کے ماتھے پر لکیر پڑنا تو دور، مسکراہٹ کی لکیر تک میں کمی نہ ہوئی۔ مخصوص شہد سے شیریں دھیمے انداز میں جوابات ارشاد ہوتے رہے۔ میں نے ایک گہری سانس لی اور آخری مکالمہ یاد کرنے لگا۔
"میں کر جاؤں گا۔ آپ بتائیے تو صحیح کیا کرنا ہے۔ میں نے جس چیز کیلئے کوشش کی آج تک ناکام نہیں ہوا۔" میں بابا کو یقین دلا رہا تھا۔ بابا اندھیرا پھیلنے سے پہلے چراغ روشن کرنے کی فکر میں مشغول تھے۔ "بڑے بڑے شہسوار اس میدان میں منہ کے بل گرتے ہیں، صحرائی کے ساتھ صحرا کی خاک نہ چھانو گے تو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔" جواب آیا۔ "مگر۔۔۔ میں یہاں کیسے رہ سکتا ہوں" میں نے بیچارگی سے اسباب سے خالی اندھیرے میں غرق جھونپڑے پر نظر دوڑائی۔ "آپ میری رہنمائی کر دیجیے یقین جانیں میں خوب صلاحیت رکھتا ہوں۔" چراغ جل اٹھا۔ جھونپڑے کا منظر واضح ہو گیا۔ بابا کا چہرہ سنجیدہ اور کچھ اداس سا لگ رہا تھا۔ روشنی سے نظریں ہٹا کر مجھ پر جما دی گئیں۔ میں کچھ جھینپ کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔
"دل جہاں اٹکا ہے اس سے آگے کتنے قدم اٹھا لو گے؟ اس سیر کا تو آغاز ہی میلوں دور سے ہو گا۔"
"میں پوری کوشش کروں گا۔۔۔"
 "میں۔۔۔ ختم کرنی پڑے گی۔ تبھی میں سے ملو گے۔ جب اصل چہرے جی بھر کر دیکھ لو، جب جی اچاٹ ہو جائے۔ جب میں سے امید ختم ہو جائے، جب میں کی چاہ پوری طرح بھڑک اٹھے۔۔۔ تو مجھے آواز دینا۔ میں پھر ملوں گا۔"
"جی اچاٹ ہو گیا، میں سے امید ختم ہو گئی، میں سے ملنا چاہتا ہوں، سیر کو تیار ہوں۔۔۔" میں نیند میں ہم کلامی کرتا رہا حتی کہ آنکھ لگ گئی۔
چند گھنٹے گزرے یا چند منٹ کچھ پتہ نہیں، ہوائیں سرد سے سرد تر پھر یخ بستہ ہو گئیں۔ جسم اکڑنے لگا۔ ٹھنڈ جب چمڑی و گوشت کا سنگ راہ عبور کر کہ ہڈیوں میں گھسنے لگی تو چھینک مار کر آںکھ کھول دی۔
"الحمداللہ!" زخم پر مرہم رکھنے والی مانوس آواز پردہ سماعت سے ٹکرائی اور میں پوری طرح جاگ اٹھا۔ اس بار میں کسی صحرا میں نہیں تھا۔۔۔
تاحد نگاہ سفید رنگ اپنی تمام تر بزرگی کے ساتھ برف کی صورت عیاں تھا۔ سیدھی سپاٹ اور شفاف بچھائی ہوئی وسیع و عریض طشتری نما مقام تھا۔ ہر چند قدم پر  برف میں ڈھکے پھول پتوں سے عاری درخت تھے جو بے سروسامانی کے باوجود اداس نہ لگتے تھے۔ دور فاصلوں پر کچھ جانور بھی حرکت کرتے دکھائی دیتے۔ کہیں کہیں برف کی چادر اوڑھے پہاڑ دکھائی دیتے جن پر جنگلی حیات کے آثار موجود تھے۔ اس عالیشان برف زار کے بیچوں بیچ جو دو نفوس موجود تھے وہ میں اور بابا صحرائی ہی تھے۔ وہم و گمان تک میں نہ تھا کہ بابا سے دوبارہ ملاقات ہو گی اور وہ بھی ایسی کسی جگہ۔
"اے پسر، حیران نہ ہو۔ لقب صحرائی ہے۔۔۔ رسائی رب کریم کی عظیم الشان سلطنت میں وہاں تک ہے جہاں تک کرم خصوصی۔ اور ہماری رسائی اصل ہے دجل نہیں۔" بابا صحرائی کی با رعب آواز میں نے مشرق و مغرب میں گونجتی محسوس کی۔ کچھ دیر اس صدا کا اثر قلب و روح میں محسوس کرنے کے بعد میں آہستگی سے گویا ہوا:
"میں ختم ہو چکی ہے۔۔۔"  
"خوب ہے۔۔۔ جو شے اصل ہی نہ ہو اس پر زندگی ضائع کرنے سے کیا حاصل۔" بابا اپنا رخ اب میری طرف پھیر چکے تھے۔
 "اصل نہ ہو؟ تو پھر اصل کیا ہے؟" میں غیر محسوس انداز میں بابا کے پاس سرکنے لگا کہ آواز صاف آئے۔ یہ اہم ترین سوالوں میں سے ایک تھا۔ اصل ہی تو معلوم کرنا تھا۔ اصل معلوم ہوئے بغیر گزاری زندگی بھلا کوئی زندگی تھی؟ میرے تمام حواس جواب کی طرف متوجہ اور منتظر ہو گئے۔ بابا کے چہرے پر مخصوص لطیف مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی۔ آنکھیں اس قدر سکون سے بند کیں کہ چاروں طرف اطمینان پھیلتا چلا گیا۔ کچھ دیر خموشی کے بعد ہاتھ اوپر آسمان کی طرف اٹھا، انگلیاں بند تھیں سوائے انگشت شہادت کے۔ "وہ اصل ہے۔"
جواب اپنے اندر خود ایسی مضبوط دلیل تھا کہ کسی سہارے کی ضرورت نہ تھی بلکہ دلائل کا وجود اس جواب کے دم سے تھا۔ فلسفے اور حقیقت کا فرق تین الفاظ میں نمایاں ہو گیا۔ پہیلی کا سب اہم حصہ درست معلوم ہو گیا۔ کوئی وضاحت کوئی تفصیل اگرچہ درکار نہیں تھی مگر مزید کی جستجو ہوئی۔ سو اِدھر شوق پیدا ہوا اُدھر جواب صادر ہوا:
"بس جو کچھ موجودات ہیں وہ محض نقلوں کے نام ہیں اپنی اصل میں وہ جن کے نام ہیں وہ اثر کا نتیجہ ہیں نا کہ خود کسی قسم کی کوئی مستقل اصل ہیں اور اصل نام تو اسکا ہے کیونکہ اسکا نام اصل رکھتا ہے وہ نام رکھتا ہے کوئی اسکا نام نہیں رکھتا اس نے اپنا نام "میں" رکھا ہے اور اس نے جو "میں" پیدا کی ہے اس نے اسکو "وہ" سے جانا ہے۔ بس وہ نام جو اپنی اصل رکھتا ہے اسکا ہے اور حکمت کیساتھ تقاضا ہے کہ منادی یعنی نام کو پکارنے والا بھی ہو بس اسکے نام کے فیض سے سب مخلوق کو اثر کیساتھ وجود بنایا کیونکہ جس نے میں کو پیدا کیا ہے خود (پیدا شدہ) میں کے اثرات سے دور ہے یہاں تک کہ دور سے دور اور پھر بہت دور ہے بس اسکی تعریف سے بیان معذور ہے اور وہ پاک و بلند اس بات میں عارضی و مستقل کسی قسم کا کوئی شریک نہیں رکھتا اہل عرب اسکو "ھو" اور وہ خود کو "انا" اور مخاطب اسکو "انت" کہتا ہےاسلئے انا، ھو اور انت کا اطلاق اغیار پر کرنا مجازی ہے تاکہ کاروبارِ دنیا کو رونق ہو ورنہ انا ھو اور انت ایک ہی ذات کیطرف اشارہ کرتے ہیں جہاں دوئی کا شائِبہ بھی نہیں ہے۔ وہ اسی لئے وہم و گمان سے بالا ہے اور جو حد ادراک سے بالا ہو وہ صرف وہی ہے جو اس صفت یعنی ادراک سے بالا ہونے میں واحد ہے اسلئے اہل عرب اپنی لغات میں اسکو اللّٰہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔"
ٹکڑوں میں تقسیم تصویر کا سب سے اہم حصہ بالکل ٹھیک لگ چکا تھا۔ آگے سیر تھی۔ زوال سے کمال تک کا سفر شروع ہو چکا تھا کہ اصل کی خبر لگ چکی تھی اور نقل اپنے تمام تر بودے پن کے ساتھ عیاں ہو چکا تھا۔ اب جاننا تھا کہ کب۔۔۔ کیسے۔۔۔ کیوں۔۔۔ کہاں؟؟


؎ فراز عادل



0 comments:

Facebook Blogger Plugin: Bloggerized by AllBlogTools.com Enhanced by MyBloggerTricks.com

ایک تبصرہ شائع کریں