بدھ، 25 مئی، 2016

سیور - باب اول قسط نمبر 3: شعلہ عشق



پچھلی اقساط کا خلاصہ: میں، محمد عمر، بائیس سالہ نوجوان جو سچ جاننے اور اپنے سوالات کا جواب پانے کیلئے اپنی زندگی وقف کر چکا تھا۔ دو سال پہلے ایک عجیب واقعہ سے دوچار ہوا کہ رات سو کر اٹھا اور خود کو ایک صحرا میں پایا جہاں میری ملاقات ایک مرد بزرگ سے ہوئی اور ناقابل یقین چیزوں کو دیکھا اور جانا۔ پھر واپس اپنے گھر لوٹا دیا گیا اور اس واقعہ کو محض ایک خواب سمجھ کر فراموش کر بیٹھا۔ پھر دو سال تک اپنے سوالات کے جواب در در ڈھوںڈ کر عاجز آ گیا تو دوبارہ انہی بزرگ کے پاس پہنچا دیا گیا مگر اس بار ہماری ملاقات کا ٹھکانہ ایک برف زار تھا۔ اب آگے پڑھیں۔
(سیور یعنی سیر کا اصل آغاز اب سے ہے البتہ پچھلی دو اقساط پڑھنے کے لائق ہیں اور ان کے لنکس کمنٹس میں موجود ہیں۔)

اس برف زار میں 'یقین کے نخلستان' جیسا نعمت کدہ نہیں تھا (یقین کے نخلستان کے بارے میں جاننے کیلئے پہلی قسط پڑھیے)۔ یہاں ہر روز ایک مخصوص وقت پر ہمارے برف کے بنے گھر کی برفیلی زمین کے نیچے دو گہرے دھبے سے پڑ جاتے۔ میں انہیں کھودتا تو دو درمیانے حجم کی سرمئی مچھلیاں اندر سے تڑپتی ہوئی برآمد ہوتیں۔ پھر آگ جلانے کی مشقت کرتا اور انہیں بناتا۔ ابتداء میں بابا کے حکم پر دونوں مچھلیاں میں ہی کھا لیا کرتا کہ بس یہی دن بھر کی خوراک ہوتی اور اس کے سوا پورے دن کچھ اور میسر نہ آتا۔ حالانکہ صحرا کے برخلاف یہاں کچھ جانور بھی نظر آتے مگر وہ ہمارا رزق نہیں تھے۔ شمس و قمر کی گردش کے ساتھ مجھ میں کچھ تحمل آتا گیا تو خوراک اور کم کر دی گئی۔ اب بابا ایک مچھلی استعمال کرتے اور میں بھی ایک پر اکتفا کرتا۔ اس سے قبل بابا کی خوراک کیا رہی میں اس سے لاعلم ہوں کہ میں نے انہیں کسی نعمت سے لطف اندوز ہوتے نہیں دیکھا۔ پھر ایک صبح بابا نے سفر کا حکم دیا۔
سامان کے نام پر جو مٹی کے برتن وغیرہ تھے ایک کپڑے میں ڈالے اور کندھے پر لاد کر چل پڑے۔ اگلا پڑاؤ ایک سبزہ زار ٹھہرا۔ یہاں قسم قسم کے شاندار پھل اگتے تھے، حلال جانوروں کی بھی بہتات تھی اور شفاف پانی کی کئی ندیاں بہتی تھیں۔ مگر یہاں ہمارا رزق برف زار سے بھی کم طے ہوا کہ پھل کڑوے کسیلے تھے اور جانور ہاتھ نہ لگتے۔ حتی کہ کسی کو پکڑ بھی لیا تو ذبح کرنے سے پہلے آنکھیں بند کر کے مردار ہو جاتا۔ ندیوں سے پانی نکالتے ہی خشک ہو جایا کرتا۔ بابا پہلے ہی باخبر تھے البتہ کچھ دن کی جدوجہد کے بعد میں نے بھی مشیت ایزدی پر صبر کرنا سیکھ لیا۔ یہاں درخت کے تنوں اور جھاڑیوں سے بنے ہمارے جھونپڑے کے باہر ایک چھوٹا سا پودا تھا جو ہر دو دن کے بعد دو پھل دیتا۔ بس وہی ہماری خوراک تھی۔ اس پودے سے چند قدم دور ایک خشک ندی تھی جو دن میں دو بار انتہائی مختصر دورانیے کیلئے جاری ہوتی اور ہماری ضروریات پوری کرتی۔ آہستہ آہستہ خواہشات بھی منہدم ہوتی چلی گئیں اور دل میں ذکر الہی کے علاوہ کوئی شوق نہ بچا۔ کچھ کھانے کا خیال صرف تب آتا جب باعث کمزوری قیام اور رکوع دوبھر ہو جاتے۔ اس حال میں ہم دو سال رہے یہاں تک کے میرا ظاہر و باطن یکسر تبدیل ہو گیا۔ ابتداء میں بابا سے ہر دو گھڑی بعد ہم کلام ہوا کرتا تھا۔ اب اشارہ کافی ہوتا اور آپس میں بات بہت کم کیا کرتے جبکہ سارا وقت یاد الہی میں گزرتا۔ پھر سفر کا حکم ہوا اور ہم واپس صحرائے عرب اپنے عارضی ٹھکانے پر جا پہنچے۔
"دنیا والے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے، بابا صحرائی نے چند سالوں میں کیسے تنومند جوان کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ڈالا۔" بابا نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
میں مسکرا دیا۔ واقعی تین سال کی ریاضت نے مجھے نحیف البدن کر دیا تھا مگر اس کے عوض جس قوت ایمانی سے میرے قلب کو تقویت ملی تھی اس کی خبر بھلا دنیا والوں کو کیونکر ہو پاتی؟
"یقین کا نخلستان اس ٹیلے کے پار موجود ہے، اے شاگرد باکمال بیشک اب تم اس لائق ہو کہ اسے پا لو اور من پسند نعمتوں سے اپنی محرومیاں دور کرو اور خود کو شاد کرو۔" بابا نے بھرپور انداز میں مسکراتے ہوئے باہر کی جانب اشارہ کیا۔
میں بے اختیار باہر جھانکنے لگا۔ یقین پیدا ہو چکا تھا اس لیے یقین کا نخلستان میرے لیے حاضر تھا۔ توجہ اس سمت کی تو گرم تپتے صحرا میں یقین کے ںخلستان سے چلنے والی ٹھنڈی ہوائیں چہرے سے ٹکرانے لگیں، ہوائیں جن میں آب یخ کے قطرے لدے تھے، ہوائیں جن میں خوش ذائقہ لوازمات کی خوشبو بسی تھی۔ اتنے سالوں میں من چاہی ایک بھی چیز میسر نہ آئی تھی۔ فرط شوق میں یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔ ابھی دہلیز سے پار قدم تک نہ رکھا تھا کہ روشن قلب میں ویرانی سی پھیلنے لگی۔ "بس یہی منزل تھی؟ بس یہی اختتام تھا جستجو کا؟" دل مضطر کی صداؤں نے وجود جھنجھوڑ ڈالا۔ قدم اپنی جگہ منجمد ہو گئے۔ اپنی غلامی خواہشات پر ملامت کی اور پوری قوت سے واپس اندر کو دوڑ آیا۔ دوزانو ہو کر بابا کے آگے بیٹھا تو ہانپ رہا تھا جیسے میلوں دور سے بھاگتا آیا ہوں۔
" چہ شد اے فرزند؟" (کیا ہوا اے فرزند؟) بابا کی آنکھوں میں شفقت ابھر آئی جبکہ میری اشکبار ہو گئیں۔
" من این نخواستہ ام" (میں یہ نہیں چاہتا ہوں) میں نے اس قدر آہستہ آواز میں کہا کہ خود مجھے بھی آواز نہیں آئی۔
" پس چہ میخواہی؟" (پھر کیا چاہتے ہو؟) بابا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
" میں جاننا چاہتا ہوں۔۔۔ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کیا تھا۔۔۔ وہ کیا تھا جس نے ابراہیم ادھمؒ سے تخت چھڑوایا۔۔۔ وہ کیا تھا جس نے منصور کو دار پر مُسکراہٹ دی، وہ کیا تھا جس نے ویرانوں میں فریدؒ کو بھگایا وہ کیا تھا کہ۔۔۔" میں آنکھیں بند کر کہ کہتا چلا گیا کہ اچانک بابا ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور گویا پورا صحرا ڈول گیا۔ میں نے آنکھیں کھول دیں اور گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ بابا کی ایسی کیفیت پہلے نہیں دیکھی تھی۔ جسم پر کچھ لرزہ سا طاری تھا۔ اس سے قبل کہ کچھ پوچھ پاتا یکایک چار سو یوں اندھیرا پھیل گیا جیسے سورج کے آگے کسی نے ہاتھ رکھ دیا ہو۔ ہر شئ
 کو اندھیرے نے نگل لیا بس انکا وجود نورانی واحد شئی تھی جو سرخی مائل تانبے کی طرح اس اندھیرے میں چمکتی نظر آتی تھی۔ ہر طرف اتنا سناٹا چھا گیا کہ رگوں میں دوڑتے خون کی بھی آواز سنائی دینے لگی، پھر جیسے کسی نے اسے بھی خاموش کروا دیا۔ اب نہ آنکھ کیلئے کچھ بچا تھا نہ کان کیلئے۔ ایسے میں انہوں نے اپنی انگلی میرے دل کے مقام پر رکھی اور پھر ان کی بلند صدا سے پورا صحرا گونج اٹھا۔
عشق آن شعلہ است کو چون برفروخت
 ہرچہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
تیغِ لا درقتلِ غیرِحق براند
 درنگر زان پس کہ بعدِ لا چہ ماند
 ماند اِلّااللّٰہ باقی جملہ رفت
شادباش اے عشقِ شرکت سوز زفت
عشق وہ شعلہ ہے کہ جب وہ جل اٹھا
 جو کچھ معشوق کے سوا باقی ہے سب اس نے جلا دیا
لا کی تلوار غیرِحق کے قتل کو نکالی
 پھر دیکھو اسکے بعد باقی کیا بچا؟
رہا الااللّٰہ باقی سب کچھ گیا
خوش رہ اے عشق ہر برے شراکت دار کو جلانے والے
بابا اشعار کہتے کہتے تحلیل ہوتے جا رہے تھے، یہاں تک کہ اشعار مکمل ہوئے تو مکمل تحلیل ہو چکے تھے جیسے کبھی سامنے موجود ہی نہ تھے۔ مگر اس وقت بابا کے تحلیل ہونے سے زیادہ دھیان میرا اپنا سینے کی طرف تھا جس میں سخت تکلیف اور درد ہونے لگا تھا۔ میرے دل کی دھڑکن اس طرح تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی جیسے پورا وجود دل بن کر دھڑک رہا ہو اور میں کسی بھی لمحے اس تیزی کی تاب نہ لاتے ہوئے پھٹ کر فنا ہو جاؤں گا۔ مجھے یہ تک پروا نہیں تھی کہ میں اندھیروں میں گم ہوچکا ہوں بس درد و کرب کیساتھ تلملا رہا تھا۔ رہنمائی کیلئے بابا بھی موجود نہیں تھے۔ بس میں درد اور خوف سے دوہرا ہوتا چلا گیا اور جہان فانی سے کوچ کرنے کا انتظار کرنے لگا۔
پھر اچانک کرب و بلا میں کمی آنے لگی ساتھ ہی تیز سرد ہوا سے مجھے برف کی پرانی آشنا سی مہک محسوس ہونے لگی۔ سینے سے جہاں بابا نے انگلی رکھی تھی ایک شعلہ آنًا فانًا نکل کر روشنی کرتا ہوا بلکل مخالف سمت تیزی سے نکل گیا جس سے مجھے بلکل سکون ہو گیا۔ سوختگی سے چھٹکارا پا کر جب اپنے سامنے نظر کی تو ایک مُہیب ترین نظارہ آنکھوں کے سامنے پایا۔ ہر طرف میرے واقف کاروں کے برف سے بنے بُت پڑے تھے۔۔۔
 شعلے سے میدان میں روشنی ان بتوں کے پک و پوز اس قدر واضح بتلا رہی تھی کہ اپنے واقف کاروں کے بارے میں جو کچھ ان بتوں نے مجھے بتلایا وہ کبھی انہیں روبرو دیکھ کر معلوم نہ ہو سکتا تھا۔ ایک ایک شخص جس سے میں زندگی میں کبھی ملا میرے سامنے موجود تھا بھرپور اور مکمل موجود تھا۔ جن کے ساتھ سال گزارے یا جن کے ساتھ لمحے، سب کی مکمل تفصیل ان بتوں سے عیاں ہوتی تھی۔
ابھی اس منظر کو محو حیرت تک رہا تھا کہ اچانک دل دہلا دینے والی کڑاکے دار آواز پیدا ہوئی جس کے ساتھ ہی آگ کا ایک ایسا بگولہ نمودار ہوا کہ جس کی روشنی ہر آن بڑھتی جاتی تھی۔ آگ کا یہ ہیبت ناک بگولہ میرے تمام شناساؤں کے بت کھانے لگا۔ اس کی حدت و گرمی سے سب پگھلنے لگا اور سب کچھ اس نے فنا کر دیا۔ میں پھٹی ہوئی آنکھوں سے یہ دہشت ناک منظر دیکھ ہی رہا تھا کہ آگ کا بگولہ سب کچھ چاٹ لینے کے بعد کچھ دیر ٹھہرا۔۔۔ اور پھر تیزی سے میری طرف بڑھنے لگا۔۔۔
میں خوفزدہ ہو کر بھاگا۔ اس بگولے کی زد میں آنے پر اپنے انجام کی پیشن گوئی میں بخوبی کر سکتا تھا۔ الغرض میں نے پوری قوت سے اپنے پیروں کو حرکت دی اور ٹانگوں کا پورا زور اس سے بچ نکلنے کیلئے خرچ کیا مگر اس نے مجھے آ ہی لیا۔ خوف کے مارے ایک زوردار چیخ میرے حلق سے نکلی اور اپنے تکلیف دہ انجام کا خیال کر کہ آنکھیں شدت سے میچ لیں۔ مگر اس بگولے نے مجھے نہ جھلسایا بلکہ اس کی لپیٹ نرم معلوم ہوئی حتی کہ اس نے مجھے اپنے اندر مکمل سمو لیا کہ پھر گہرا اندھیرا اور سناٹا چھا گیا اور سکون و اطمینان کی عجب کیفیت میرے بدن میں داخل ہوتی چلی گئی۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا:
"اے وہم و گمان و خیال و ادراک سے برتر و پاک سب تعریفیں تیری طرف لوٹتی ہیں اور تعریف کا اصل حق تجھے ہے کہ تیری تعریف کی جائے جو عدم کے ویرانوں کو وجود بخش کر نور حیات سے مزین فرماتا ہے"۔
بس پھر میں ہر چیز سے بے خود ہو گیا۔مجھے نہیں معلوم کہ میں ہزاروں سال کا وقت ایک لمحے میں طے کرگیا یا صرف ایک لمحہ بے خود رہا یعنی وہ ایسی بیخودی تھی جس کا بیان ہی ناممکن ہے۔
اور جب باخود ہوا تو میں بلکل انجان جگہ پر تھا۔
میرے سامنے دو دنیائیں تھیں۔ ایک چھوٹی تھی جس میں عمل ہوتا تھا اور دوسری بہت بڑی جس میں اس عمل کا نتیجہ ظاہر ہوتا تھا۔ چھوٹی دنیا میں ہونے والا فساد و دنگا، جنگ و جدل وغیرہ اس بڑی دنیا میں عیاں ہوتا۔ یعنی دونوں جہان خیر و شر کے مظاہر کا ثبوت اور ان کی لڑائی اور جنگوں کے افسانوں کا محل تھے۔ یہ دونوں دنیائیں الگ ہونے کے باجود جڑی ہوئی تھیں اور میں ان دونوں کی سرحد پر موجود تھا۔
یہ سرحد طویل  مگر انتہائی سیدھی اور کشادہ تھی۔ میں اس پر چلنے لگا۔ ابھی کچھ قدم لیے تھے کہ ایک ایسی آواز آنے لگی جو کسی بے انتہا وزنی وجود کی حرکت سے پیدا ہونی چاہیئے۔ رفتہ رفتہ آواز تیز ہوتی گئی کہ وہ وجود تیزی سے میری طرف آ رہا ہے اور پھر ایک نورانی لوح دور سے نمودار ہوئی جو مکمل چاند کی طرح روشن اور کامل مربع تھی یعنی معلوم ہوا کہ دنیا میں موجود تمام مربع اس کی نقل تھے اور یہ مربع اصل تھا۔
نہایت تیز رفتار سے وہ قریب آتی گئی یہاں تک کہ بالکل قریب آ گئی اور خوب نمایاں ہو گئی۔ وہ ہوا میں معلق تھی اور آگے پیچھے دائیں بائیں الغرض ہر ایک سمت سے بالکل ایک سی تھی اور اس پر لکھا تھا
سَبَقَت رَحمَتے غَضَبی
"میری رحمت میرے غضب پر غالب آگئی"
اور یہ اسقدر خوش خط لکھا ہوا تھا کہ بآسانی پڑھا جارہا تھا ۔پھر اس لوح سے ایک نور کی کرن پھوٹ کر مجھ پر آگری جس سے محسوس ہوا کہ گویا یوں معارف ظاہر ہورہے ہیں کہ رحمت اصل ہے کائنات کی تخلیق کی اور غضب اپنی اصل نہیں رکھتا بلکہ بے بود ہے اور اپنی اصالت میں رحمت کا محتاج ہے اور اسکا ظہور بھی رحمت سے ہوتا ہے جیسے تخلیق رحمت سے ہوتی ہے نہ کہ غضب اور جھگڑے سے اور جھگڑا اور غضب رحمت سے نمودار ہوا ہے۔ بس رحمت غالب ہوجانے کی اصل رکھتی ہے اور غضب کی اصلیت رحمت کو رجوع کرجاتی ہے ۔
میرے بدن میں خوشی و سرشاری کی لہر دوڑ گئی۔ 'سیور' کا آغاز ہو چکا تھا۔ میں ان چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا  جن کا محض ذکر ہی انسان کو حیران کر دیتا اور جن میں سے بیشتر کا ذکر بھی انسان کو میسر نہ تھا۔ سیر کے پہلے قدم پر ہی کائنات کی تخلیق کا اصل مجھ پر یوں عیاں ہوا کہ دنیا بھر کے فلسفی اور منطقی مل کر اس اصل کے عشر عشیر تک نہ پہنچے نہ پہنچ پاتے کہ عقل محدود ہے اور ایسے مشاہدے سے وہ قطعاً محروم ہیں۔
اس کے بعد لوح آگے گزر گئی اور اس کے پیچھے لکھا ہوا دیکھا
کُنْتُ کَنزا مَخفّیا فَاَحبَبْتَ اَن اُعْرَف فَخَلَقْتُ الخلَقَ لاُِعرَف
"میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پھر میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو مخلوق بنا دی تاکہ پہچانے"
میں دیر تلک اس واقعہ سے پیدا ہونے والی لذت و کیفیات میں ڈوبا رہا۔بیشک اس دنیا کی بہت بڑی حقیقت مجھ پر عیاں ہوئی تھی اور رب کے رحیم ہونے کی صفت خوب واضح ہو چکی تھی۔

 ؎ فراز عادل








0 comments:

Facebook Blogger Plugin: Bloggerized by AllBlogTools.com Enhanced by MyBloggerTricks.com

ایک تبصرہ شائع کریں