ناظرین اب کی بار
تو میں قسم اٹھا کر کہ سکتا ہوں کہ عادل نیوز کی نئی قسط میں تاخیر رشید خبری کی
وجہ سے ہی ہوئی۔ نئی قسط کیلئے رپورٹنگ پر ان کا انتظار کرتے کرتے جب کئی گھنٹے
گزر گئے تو میں نے ان کے گھر پر فون کیا۔ معلوم ہوا کہ موصوف ایک نئی خبر کا سن کر
بھاگے بھاگے معلومات لینے گئے تھے اور جب واپس آئے تو خود کو کمرے میں بند کر لیا۔
کچھ دیر تک کمرے سے گدھے کے رینکنے کی آوازیں آتی رہیں تو گھر والے سمجھے کہ شاید
حسبِ معمول کوئی مزاحیہ فلم لگا کر ہنسنے میں مصروف ہیں۔ مگر تھوڑی دیر بعد جب ریں
ریں میں بھوں بھوں کی آمیزش ہوئی اور کرب جھلکنے لگا تو دروازہ بجا کر خیریت
دریافت کی گئی۔ اندر سے جواب آیا کہ بس اب اس کمرے سے ان کی لاش ہی نکلے گی۔ رشید
خبری کی خبر سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ موت تو بہرحال حق ہے اور رشید خبری کے
مرنے سے کسی کو بھلا کیا فرق پڑ سکتا تھا کیونکہ ان کا تعلق نہ تو فرانس سے ہے نہ
امریکہ سے مگر عادل نیوز کو کافی بڑا دھچکا لگ سکتا تھا اور میں سب کچھ برداشت کر
سکتا ہوں مگر لوگوں میں مسکراہٹیں بانٹنے والی اس عادل نیوز کی راہ میں کوئی رکاوٹ
برداشت نہیں کر سکتا۔ سو میں نے اسی وقت دوڑ لگائی، چار چار سیڑھیاں ایک جست میں
پھلانگتا گھر سے نیچے اترا، کمپاؤنڈ کی پارکنگ کی طرف رخ کیا، گاڑی سٹارٹ کی اور
جب دیکھا کہ پڑوس کے شبیر انکل بھی پیچھے پیچھے بھاگے چلے آتے ہیں تو فوراً روڈ پر
نکل آیا اور رکشہ پکڑ کر رشید خبری کے ہاں روانہ ہو گیا۔ "کمبخت چور اچکا
کہیں کا جب دیکھو نقلی چابیوں سے میری گاڑی اسٹارٹ کر کے بھاگ جاتا ہے بدبخت ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔" دور تک شبیر انکل کی مشفقانہ صدائیں گونجتی رہیں۔
رشید خبری کے گھر پہنچا تو فون پر ملنے والی معلومات کو حرف
بہ حرف سچ پایا۔ رشید خبری واقعی کمرہ بند تھے۔ میں نے دروازہ بجانے کے بجائے پہلے
سلام کرنا مناسب سمجھا:
"اسلام و علیکم"
"شوں شوں ۔ ۔ ۔ وعلیکم اسلام ۔ ۔ ۔ اگر آپ مجھے باہر نکلنے پر آمادہ کرنے آئے ہیں تو سن لیں کہ میں اب باہر نہیں آںے والا" اندر سے رشید خبری کی رندھی ہوئی آواز آئی۔
"اسلام و علیکم"
"شوں شوں ۔ ۔ ۔ وعلیکم اسلام ۔ ۔ ۔ اگر آپ مجھے باہر نکلنے پر آمادہ کرنے آئے ہیں تو سن لیں کہ میں اب باہر نہیں آںے والا" اندر سے رشید خبری کی رندھی ہوئی آواز آئی۔
"جناب میں کون ہوتا ہوں آپ سے کوئی مطالبہ کرنے والا۔
آپ صحافی ہیں اور آپ کو ہر قسم کی مکمل آزادی ہے بس گلے میں صحافت کا کارڈ لٹکائیں
اور جو مرضی کرتے پھریں۔ مگر اتنا تو بتائیے کہ ہوا کیا ورنہ آپ کے پرستاروں کو
کیسے پتہ لگے گا کہ آپ نے کس عظیم مقصد کیلئے احتجاجاً اپنی جان دی۔" میں نے ان
کی بچی کچی نفسیات سے کھیلتے ہوئے تقریر پھینکی۔
"آہاں ۔ ۔ ۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس بار احتجاج ملک و
ملت کے وسیع تر مفاد میں نہیں۔" ان کی شرمندہ سی آواز منمنائی۔
"پھر بھی بتائیے تو!"میں نے اصرار کیا۔
"بات دراصل یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ آپ تو جانتے ہی ہیں انصاف
خان کی شادی پر میں کتنا خوش تھا۔ ۔ ۔ اس عمر میں اتنی خوبصورت شادی رچا کر انہوں
نے اپنے سے سینئر کنواروں کے دل میں ایک نئی امنگ ایک نئی امید ایک نئی۔ ۔ ۔ وغیرہ
کی کئی شمعیں روشن کر دی تھیں ۔ ۔ ۔ اور آج۔ ۔ ۔
آج ان کی طلاق ہو گئی۔ ۔ ۔ اب مجھے صرف اندھیرا ہی نظر آتا ہے ۔ ۔ ۔ اب میری
زندگی میں صرف مایوسی ہی مایوسی ہے۔ ۔ ۔ فراز صاحب بس اب اس کمرے سے میری لاش ہی
نکلے گی" انہوں نے ایک سرد آہ بھری اور پھر ریں ریں اور بھوں بھوں کی آوازیں
آنا شروع ہو گئیں۔
میں نے انہیں پوری ایمانداری سے الوداع کہا اور پیشگی سورۃ
فاتحہ اور دعائے مغفرت پڑھ کر افسردہ قدموں سے گھر واپس لوٹ آیا۔ کچھ ہی دیر گزری
تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کھولا تو سامنے رشید خبری کھڑے تھے۔ میری چیخ نکل
گئی۔ قصہ مختصر یہ کہ انہیں یہ یقین دلانے میں کافی دیر لگی کہ وہ 'زندہ لاش' نہیں
ہیں۔ رپورٹنگ کا سلسلہ اس کے بعد شروع ہوا۔
ناظرین مایوسی کی یہ لہر جو رشید خبری سے اٹھی دیکھتے ہی
دیکھتے اس نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا اور عنقریب ہونے والے بلدیاتی انتخابات
بھی اس مایوسی کی نظر ہو گئے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ہم نے پاکستان کی ایک
'بڑی' سیاسی جماعت 'خون پی پی پی' کے زرد-آری صاحب سے بات کی تو انہوں نے عادت کے
مطابق اپنی بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے لاچاری سے کہا:
"دیکھیں جناب ان بلدیاتی انتخابات کیلئے ہماری پارٹی کے پاس کوئی مضبوط لائحہ عمل نہیں۔ کچھ کالے بوٹوں نے ہماری بے داغ ساکھ کو کچھ ایسے بے رحمی سے کچلا ہے کہ اب ہمارے پاس صرف 'اندرون' ہی بچا ہے 'بیرون' میں تو لوگ دیکھتے ہی وکٹری کا نشان بنا دیتے ہیں مگر پانچوں انگلیاں کھول کر۔ اور ستم ظریفی یہ کہ 'بھٹوز' کی شدید کمی کے باعث ہم بلدیاتی انتخابات میں کسی کو 'کام' میں نہیں لا سکتے اس لیے مایوسی ہی مایوسی ہے البتہ اگلے ضمنی انتخابات میں کچھ دھماکے دار ہو گا۔"
"دیکھیں جناب ان بلدیاتی انتخابات کیلئے ہماری پارٹی کے پاس کوئی مضبوط لائحہ عمل نہیں۔ کچھ کالے بوٹوں نے ہماری بے داغ ساکھ کو کچھ ایسے بے رحمی سے کچلا ہے کہ اب ہمارے پاس صرف 'اندرون' ہی بچا ہے 'بیرون' میں تو لوگ دیکھتے ہی وکٹری کا نشان بنا دیتے ہیں مگر پانچوں انگلیاں کھول کر۔ اور ستم ظریفی یہ کہ 'بھٹوز' کی شدید کمی کے باعث ہم بلدیاتی انتخابات میں کسی کو 'کام' میں نہیں لا سکتے اس لیے مایوسی ہی مایوسی ہے البتہ اگلے ضمنی انتخابات میں کچھ دھماکے دار ہو گا۔"
نیز اسی حوالے سے ہم نے قائد بھائی لندن والے سے بات کی تو
وہ بھی کافی پریشان نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ:
"کراچی میں تمام تر قوتیں ہمارے خلاف متحد ہو گئی ہیں۔ حتی کہ جماعت حیرانی اور تحریکِ دھرنا جیسی متضاد جماعتوں نے بھی ہمارے خلاف اتحاد کر لیا ہے۔ اب آپ خود بتائیں یہ کیسا انصاف ہے؟ لہذا ہم نے سوچا ہے کہ اس بار بھی انتخابات میں ٹھپے پولنگ اسٹیشنوں کے بجائے اپنے مخصوص دفاتر میں ہی بیٹھ کر لگائے جائیں۔ بس اللہ کرے ایک دن کیلئے یہ متعصب رینجرز والے کہیں غائب ہو جائیں ورنہ تو بس۔ ۔ ۔ مایوسی ہی مایوسی ہے!"
"کراچی میں تمام تر قوتیں ہمارے خلاف متحد ہو گئی ہیں۔ حتی کہ جماعت حیرانی اور تحریکِ دھرنا جیسی متضاد جماعتوں نے بھی ہمارے خلاف اتحاد کر لیا ہے۔ اب آپ خود بتائیں یہ کیسا انصاف ہے؟ لہذا ہم نے سوچا ہے کہ اس بار بھی انتخابات میں ٹھپے پولنگ اسٹیشنوں کے بجائے اپنے مخصوص دفاتر میں ہی بیٹھ کر لگائے جائیں۔ بس اللہ کرے ایک دن کیلئے یہ متعصب رینجرز والے کہیں غائب ہو جائیں ورنہ تو بس۔ ۔ ۔ مایوسی ہی مایوسی ہے!"
اسی بات پر مزید گفتگو کرنے کیلئے ہم نے فاتح منصورہ و لوئر
اینڈ اپر دیر، جناب جلسہ الحق سے رابطہ کیا اور ان سے اسلامی پاکستان اور نیا
پاکستان کے بے ہنگم گٹھ جوڑ کے بارے میں دریافت کیا۔ جناب جلسہ الحق صاحب کا کہنا
تھا کہ:
"اب ہم اس موقف پر متفق ہیں کہ عوام کو صرف اسلامی پاکستان نہیں بلکہ نیا اسلامی پاکستان دینگے۔ اس نئے اسلامی پاکستان میں بعض چیزوں کی گنجائش ہو گی مثلاً ڈی جے بٹ والے گانے حلال ہونگے۔ ۔ ۔ وغیرہ۔ کیونکہ الحاق کے بغیر ہم نے نصف صدی اسلامی پاکستان بنانے کی جد و جہد کی ہے مگر نتیجہ انتہائی مایوس کن نکلا۔"
سیاسی میدان میں تھوڑا اور پیدل چلے تو ایک کھجور کے درخت کے نیچے ایک ادھیڑ عمر کے پینٹ کوٹ میں ملبوس شخص افسردگی کی تصویر بنے بیٹھےنظر آئے۔ ہم ان کے چہرے کی لاچاری دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ موصوف ہمارے ملک کے صدر "میوٹ حسین" ہیں۔ ہم نے آگے بڑھ کر ان سے خیر خیریت جاننا چاہی تو آنکھوں میں آنسو بھر کر انہوں نے اپنی تکلیف سے ہمیں آگاہ کیا:
"دنیا سمجھتی ہے میرے منہ میں زبان نہیں ہے۔ حالانکہ اگر میرے منہ میں زبان نہ ہوتی تو میں دانتوں میں پھنسے پان کے ٹوٹے بھلا بغیر تیلی کے کیونکر نکال پاتا؟ مجھے خدشہ ہے کہ تاریخ مجھے گونگا بہرہ صدر کے نام سے قلم بند کرے گی۔"
ہم صدر میوٹ حسین کے منہ سے اتنے سارے الفاظ سن کر پہلے تو خود بھی شش و پنج میں پڑھ گئے کہ آیا یہ وہی صدر صاحب ہیں بھی یا نہیں۔ بہرحال ہم نے انہیں خوب جھوٹی تسلیاں دیں اور خوامخواہ ان کی ہمت بڑھائی اور انہیں کہا کہ اب آپ اپنی تقریر بغیر پڑھے فی البدیہ کریئے گا۔ الغرض ہم نے انہیں اتنا جوش دلایا کہ وہ واقعی کچھ دیر بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں جو منہ میں آیا بول گئے جس میں سب سے قابلِ گرفت بات سود پر گنجائش مانگنا قرار پائی۔ ہمیں واقعہ کا علم ہوا تو ہم نے انہیں تعزیت کا مسیج بھیجا اور نیچے "آپ سے نہیں ہو پائے گا" بھی لکھ دیا۔ جواباً صدر صاحب نے مسیج میں ایک اداس فیس والا ایموشن بھیجا جو کافی مایوس لگ رہا تھا۔۔۔!
"اب ہم اس موقف پر متفق ہیں کہ عوام کو صرف اسلامی پاکستان نہیں بلکہ نیا اسلامی پاکستان دینگے۔ اس نئے اسلامی پاکستان میں بعض چیزوں کی گنجائش ہو گی مثلاً ڈی جے بٹ والے گانے حلال ہونگے۔ ۔ ۔ وغیرہ۔ کیونکہ الحاق کے بغیر ہم نے نصف صدی اسلامی پاکستان بنانے کی جد و جہد کی ہے مگر نتیجہ انتہائی مایوس کن نکلا۔"
سیاسی میدان میں تھوڑا اور پیدل چلے تو ایک کھجور کے درخت کے نیچے ایک ادھیڑ عمر کے پینٹ کوٹ میں ملبوس شخص افسردگی کی تصویر بنے بیٹھےنظر آئے۔ ہم ان کے چہرے کی لاچاری دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ موصوف ہمارے ملک کے صدر "میوٹ حسین" ہیں۔ ہم نے آگے بڑھ کر ان سے خیر خیریت جاننا چاہی تو آنکھوں میں آنسو بھر کر انہوں نے اپنی تکلیف سے ہمیں آگاہ کیا:
"دنیا سمجھتی ہے میرے منہ میں زبان نہیں ہے۔ حالانکہ اگر میرے منہ میں زبان نہ ہوتی تو میں دانتوں میں پھنسے پان کے ٹوٹے بھلا بغیر تیلی کے کیونکر نکال پاتا؟ مجھے خدشہ ہے کہ تاریخ مجھے گونگا بہرہ صدر کے نام سے قلم بند کرے گی۔"
ہم صدر میوٹ حسین کے منہ سے اتنے سارے الفاظ سن کر پہلے تو خود بھی شش و پنج میں پڑھ گئے کہ آیا یہ وہی صدر صاحب ہیں بھی یا نہیں۔ بہرحال ہم نے انہیں خوب جھوٹی تسلیاں دیں اور خوامخواہ ان کی ہمت بڑھائی اور انہیں کہا کہ اب آپ اپنی تقریر بغیر پڑھے فی البدیہ کریئے گا۔ الغرض ہم نے انہیں اتنا جوش دلایا کہ وہ واقعی کچھ دیر بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں جو منہ میں آیا بول گئے جس میں سب سے قابلِ گرفت بات سود پر گنجائش مانگنا قرار پائی۔ ہمیں واقعہ کا علم ہوا تو ہم نے انہیں تعزیت کا مسیج بھیجا اور نیچے "آپ سے نہیں ہو پائے گا" بھی لکھ دیا۔ جواباً صدر صاحب نے مسیج میں ایک اداس فیس والا ایموشن بھیجا جو کافی مایوس لگ رہا تھا۔۔۔!
ملک کے مشہور سیاستدانوں سے دل شکستہ قسم کی گفتگو کرنے کے
بعد ہم بھی کچھ قنوطی سے ہو گئے۔ موڈ بدلنے کیلئے ہم نے تفریح کے شعبہ کی طرف نظر
دوڑائی تو ہماری نظر ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ ایما واٹسن پر اٹک گئی (رپورٹنگ کے
حوالے سے)۔ ایما واٹسن نے پاکستان کی مشہور اداکارہ 'جنگا لالہ یوسفزئی' سے ملاقات
کی خواہش ظاہر کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ وہ جنگا لالہ کے لڑکیوں کی پڑھائی سے
متعلق مشن کے بارے میں بیحد پرجوش ہیں۔ جنگا لالہ ایما واٹسن کی خواہش کے مطابق ان
کے پاس پہنچ گئیں اور انہیں اپنے 'ظاہری مشن' کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا
تھا کہ:
"پاکستان میں لڑکیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ آپ کو شاید یہ بات جان کر حیرت ہو گی کہ فیس بک پر موجود 80٪ پاکستانی پرنسس لڑکیوں سے گھر پر روٹی پکانے اور جھاڑو لگانے جیسے دقیانوسی کام لیے جاتے ہیں۔ میرا مشن ہے کہ میں پاکستان کی ہر لڑکی تک ویسے ہی تعلیم اور بالخصوص انگریزی کی تعلیم پہنچاؤں جیسے مجھ تک سوات کے ایک چھوٹے سے شہر منگورہ میں پہنچی مگر افسوس کہ مجھ تک تعلیم لانے والوں کا نیٹ ورک فی الحال اتنا وسیع نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مسلسل ملکوں ملکوں گھوم رہی ہوں اور مشہور شخصیات سے مل کر پاکستانی لڑکیوں کی فلاح کیلئے ایسے بہترین انتظامات کر رہی ہوں جو الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے ۔ ۔ ۔ ۔"
جنگا لالہ کی تقریر کافی دیر تک چلتی رہی اور اس دوران ہالی وڈ اداکارہ سر ہلاتی رہیں۔ تاہم جب ان کا ضبط جواب دے گیا تو انہوں نے اپنے سیکٹری کو بلوا کر جنگا لالہ کو گھر سے باہر نکلوایا اور سخت تاکید کی آئندہ یہ ذہنی طور پر پھری ہوئی لڑکی میرے نیڑے نہ لگے۔ ان کے چہرے پر مایوسی کے آثار صاف ظاہر تھے!
"پاکستان میں لڑکیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ آپ کو شاید یہ بات جان کر حیرت ہو گی کہ فیس بک پر موجود 80٪ پاکستانی پرنسس لڑکیوں سے گھر پر روٹی پکانے اور جھاڑو لگانے جیسے دقیانوسی کام لیے جاتے ہیں۔ میرا مشن ہے کہ میں پاکستان کی ہر لڑکی تک ویسے ہی تعلیم اور بالخصوص انگریزی کی تعلیم پہنچاؤں جیسے مجھ تک سوات کے ایک چھوٹے سے شہر منگورہ میں پہنچی مگر افسوس کہ مجھ تک تعلیم لانے والوں کا نیٹ ورک فی الحال اتنا وسیع نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مسلسل ملکوں ملکوں گھوم رہی ہوں اور مشہور شخصیات سے مل کر پاکستانی لڑکیوں کی فلاح کیلئے ایسے بہترین انتظامات کر رہی ہوں جو الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے ۔ ۔ ۔ ۔"
جنگا لالہ کی تقریر کافی دیر تک چلتی رہی اور اس دوران ہالی وڈ اداکارہ سر ہلاتی رہیں۔ تاہم جب ان کا ضبط جواب دے گیا تو انہوں نے اپنے سیکٹری کو بلوا کر جنگا لالہ کو گھر سے باہر نکلوایا اور سخت تاکید کی آئندہ یہ ذہنی طور پر پھری ہوئی لڑکی میرے نیڑے نہ لگے۔ ان کے چہرے پر مایوسی کے آثار صاف ظاہر تھے!
شوبز کے بعد ہم نے عالمی سیاست کا رخ کیا تو وہاں بھی عجیب
منظر پایا۔ معلوم ہوا کہ بین الاقوامی اکھاڑے (ملک شام) میں امن قائم کرنے کیلئے
بمباری کرنے والا ایک روسی جیٹ طیارہ اپنی ہی مستی میں اڑتا اڑاتا ترکی جا پہنچا
جہاں ترکیوں نے اس کا پیچ کاٹ کر نیچے اتار لیا اور ترکی میں بو کاٹا کے نعرے لگا
دیے۔ روسی صدر پیو ٹن نے اس واقع پر شدید رنج کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ:
"ہمارے پائلٹ ذرا آرٹسٹ مزاج کے لوگ تھے جو جنگ سے گھبرا کر تھوڑی دیر ترکی کی طرف نکل گئے۔ ان کا مقصد صرف "میرا سلطان" کے ہیرو سے آٹوگراف لینا تھا۔ مگر ترکی فوجیوں نے اپنی ہی زبان میں وارننگ دی اور دس تک گن کر جہاز مار گرایا جب کہ میرے پائلٹ یہی سمجھتے رہے کہ یہ ہمیں کوئی گانا سنا کر ہمیں خوش آمدید کہ رہے ہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ ترکی کو زبردست مزہ چکھاؤں کیونکہ آج کل مسلمانوں کا نیا قبلہ بھی امریکہ سے تبدیل ہو کر میری طرف مڑتا جا رہا ہے۔ اگر چاہوں تو ترکی کے ڈرامے اپنے ملک میں بین کر کہ ترکی کی معیشت تباہ کر دوں مگر بیگم کا کہنا ہے کہ اس گھر میں اگر 'بہلول' نہ آیا تو تم بھی نہ آنا۔" اتنا کہ کر پیو ٹن خاموش ہو گئے اور فضا میں ہلکے ہلکے مایوسی پھیلتی چلی گئی۔
ناظرین امید ہے کہ عادل نیوز کی نئی قسط "مایوسی" نے آپ کے تمام گلے شکوے دور کر دیئے ہونگے۔ صدا ہنستے مسکراتے رہیئے اور عادل نیوز اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا، لائیک کرنا اور کمنٹس میں اپنے تاثرات کا اظہار کرنا ہرگز مت بھولیے گا۔ رپورٹر رشید خبری کے ساتھ، فراز عادل، پاکستان!
"ہمارے پائلٹ ذرا آرٹسٹ مزاج کے لوگ تھے جو جنگ سے گھبرا کر تھوڑی دیر ترکی کی طرف نکل گئے۔ ان کا مقصد صرف "میرا سلطان" کے ہیرو سے آٹوگراف لینا تھا۔ مگر ترکی فوجیوں نے اپنی ہی زبان میں وارننگ دی اور دس تک گن کر جہاز مار گرایا جب کہ میرے پائلٹ یہی سمجھتے رہے کہ یہ ہمیں کوئی گانا سنا کر ہمیں خوش آمدید کہ رہے ہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ ترکی کو زبردست مزہ چکھاؤں کیونکہ آج کل مسلمانوں کا نیا قبلہ بھی امریکہ سے تبدیل ہو کر میری طرف مڑتا جا رہا ہے۔ اگر چاہوں تو ترکی کے ڈرامے اپنے ملک میں بین کر کہ ترکی کی معیشت تباہ کر دوں مگر بیگم کا کہنا ہے کہ اس گھر میں اگر 'بہلول' نہ آیا تو تم بھی نہ آنا۔" اتنا کہ کر پیو ٹن خاموش ہو گئے اور فضا میں ہلکے ہلکے مایوسی پھیلتی چلی گئی۔
ناظرین امید ہے کہ عادل نیوز کی نئی قسط "مایوسی" نے آپ کے تمام گلے شکوے دور کر دیئے ہونگے۔ صدا ہنستے مسکراتے رہیئے اور عادل نیوز اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا، لائیک کرنا اور کمنٹس میں اپنے تاثرات کا اظہار کرنا ہرگز مت بھولیے گا۔ رپورٹر رشید خبری کے ساتھ، فراز عادل، پاکستان!
؎ فراز عادل
فراز عادل کی تحریر کردہ مزید مزاحیہ تحریریں پڑھیں:
کارساز کی چڑیل: http://www.farazadil.com/2015/06/Karsaz-Ki-Churail.html
میری ناک: http://www.farazadil.com/2015/10/Meri-Naak.html
کبوتر: http://www.farazadil.com/2015/10/Funny-Urdu-Adil-News-Zar-O-Qataar.html
فکر انگیز تحاریر:
ملا کا چاند: http://www.farazadil.com/2015/11/Mulla-Ka-Chand.html
حکایات عادل
ڈراؤنی کہانی
فراز عادل کی تحریر کردہ مزید مزاحیہ تحریریں پڑھیں:
کارساز کی چڑیل: http://www.farazadil.com/2015/06/Karsaz-Ki-Churail.html
میری ناک: http://www.farazadil.com/2015/10/Meri-Naak.html
کبوتر: http://www.farazadil.com/2015/10/Funny-Urdu-Adil-News-Zar-O-Qataar.html
فکر انگیز تحاریر:
ملا کا چاند: http://www.farazadil.com/2015/11/Mulla-Ka-Chand.html
حکایات عادل
ڈراؤنی کہانی
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں