منگل، 10 نومبر، 2015

اقبال ڈے

علامہ اقبال ڈے
ایک پکے سچے پاکستانی اوراوپر سے کچھ حد تک لکھاری ہونے کے ناطے میرا فرض عین ہے کہ میں اپنے پڑھنے والوں کو علامہ اقبالؒ کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے کی تلقین کروں۔ اقبال نے جس قدر سادگی اور سلاست سے ایک اسلامی معاشرے کے افراد کی تربیت کی ہے یہ ہنر کسی اور شاعر کے نصیب میں نہیں آیا۔ آپ کا ایک شعر ملاحظہ ہو:


زمین و آسماں رابر مرادِ خویش می خواہد
غبارِ راہ و با تقدیرِ یزداں داوری کردہ!!

  سبحان اللہ! زبان و بیان کی سادگی ملاحظہ ہو!

خیر یہ تو ایک چھوٹا سا مزاق تھا مگر اس مزاق کے مقابلے اس کی کچھ حیثیت نہیں جو ہر سال ہم 9 نومبر کو اقبال ڈے کے نام پر کرتے ہیں۔ میرے ایک دیسی انگریز دوست  نے حکومت کے چھٹی منسوخ کرنے پر پورا فیس بک سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ میں نے انہیں مسیج کیا جناب جہاں تک میں آپ کو جانتا ہوں آپ نے تو غالباً اقبال صاحب کی "ایک مکڑا اور مکھی" والی نظم بھی نہیں پڑھی ہو گی، پھر اچانک ان سے اتنی عقیدت؟
کہنے لگے یارا اب تم سے کیا چھپانا، سلمان خان کی نئی فلم پریم رتن دیکھنے جانا تھا۔ سارا پلان چوپٹ ہو گیا۔

اب اس سے پہلے کے آپ میرے اس معصوم دوست پر لعن طعن کرنے کا سوچیں ذرا آس پاس (اور ہو سکے تو اپنے اوپر بھی) ایک منصفانہ نظر ڈالیں۔ ہم سب نے آج تک اقبال ڈے پر ایسا کیا کام کیا ہے جس سے ان کی روح کو تسکین پہنچی ہو؟ میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے نوجوانوں کے ایک شعر و شاعری گروپ پر
"کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا"
علامہ اقبال کے نام سے منسوب شیئر ہوتا دیکھا ہے!!

میرا ذاتی خیال ہے کہ حکومت نے اقبال ڈے کی چھٹی ختم کر کہ بہت اچھا کام کیا ہے۔ اقبال کو تو ہم زندگی سے کب کے نکالے بیٹھے ہیں، بس ایک چھٹی کا رشتہ تھا سو اب وہ بھی ختم ہوا۔ شاید ختم ہوتے رشتے کی محرومی ہی کوئی طلب پیدا کر دے! آئیں آج ہم عہد کرتے ہیں کہ روزانہ نہ صحیح ہفتہ وار بنیادوں پر ہی صحیح، اپنے انتہائی کارآمد اور مفید اسٹیٹسوں کے بیچ (مثلاً فیلنگ ایموشنل، ایٹنگ بھنے ہوئے چنے وغیرہ وغیرہ) ایک چھوٹی سی بے ضرر سی جگہ اقبال کے کسی شعر کو بھی دے دیا کرینگے، اس پر دوستوں کے ساتھ بات کرینگے، اسے سمجھنے کی کوشش کرینگے۔ یاد رکھئے گا تبدیلی صرف سوچ بدلنے سے بھی نہیں آئے گی بلکہ سوچ کو اس سمت میں موڑنے سے آئے گی جو راہیں ہمیں اقبال دکھا گئے۔ بقول امیرِ شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ:

"اے لوگو ! اقبال کو انگریز سمجھ سکا نہ تم سمجھ سکے۔

اگر انگریز سمجھ جاتا تو اقبال چارپائی پہ نہ مرتا بلکہ سولی پہ چڑھایا جاتا۔ اور اگر تم سمجھ جاتے تو آج غلام نہ ہوتے۔"

؎ انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

- علامہ اقبالؒ

؎ فراز عادل



0 comments:

Facebook Blogger Plugin: Bloggerized by AllBlogTools.com Enhanced by MyBloggerTricks.com

ایک تبصرہ شائع کریں