ہفتہ، 20 اگست، 2016

سیور - باب اول قسط 7 : بازارِ کاسد



میری پرواز تعینات کی طرف واپس پلٹنے لگی اور میں نے خود کو ایسے گھٹن اور حبس زدہ ماحول میں پایا کہ میرے سامنے ایک شہر عظیم کا کھنڈر تھا تھا جسکے حصار شکستہ اور گھر ویران تھے۔ تباہی اور بربادی اس شہر کے چپے چپے سے عیاں تھی اور خبر دے رہی تھی کہ کسی بڑے صدمہ اور حادثہ کا ظہور یہاں ہوا ہے۔ آسمان پر ابر کی وجہ سے روشنی کم تھی جس کی وجہ سے اس کھنڈر کی یاسیت اور بڑھ رہی تھی۔ آسمان ابر سے ڈھکے ہونے کے باوجود زمین گرمی سے ایسے سلگ رہی تھی کہ حدت جوتوں سے چڑھ کر پیروں تک آتی محسوس ہوتی۔ میں نے پریشان ہو کر بے اختیار کمر بند کو ہاتھ لگایا اور بوتل کو وہاں موجود پا کر بیحد تسلی حاصل کی۔
شہر کی شکست خوردہ فصیل تک پہنچا تو دیکھا کہ صدر دروازہ ٹوٹ کر بند ہو چکا تھا اور اس کا خاطر خواہ حصہ زمین میں اس مضبوطی سے گڑا ہوا تھا کہ اسے ہلانا تک ناممکن تھا۔ اس برباد دروازے کے دائیں بائیں دیوار پر انسانی بت کشید کیے ہوئے تھے جن پر نظر پڑی تو خدا کو یاد کیا۔
ان میں ایک انسانی مجسمہ خود اپنی آنکھیں نکالنے کیلئے ایک چاقو اپنے آنکھ کے حلقے پر رکھا ہوا تھا تو دوسرے چاقو سے اپنا آدھا کان کاٹے ہوئے تھے اور چاقو بقیہ کان میں دھنسا ہوا تھا۔ دونوں کے سینوں پر سرطان نما پھوڑے تھے جنہیں دیکھ کر ہی کراہیت اور بے پناہ خوف کا احساس ہوتا تھا۔ میں نے ان بتوں سے نظریں دور کیں اور اس امید سے شہر کے حصار کے ساتھ ساتھ چلنے لگا کہ کہیں سے اس کھنڈر کے اندر جانے کی کوئی سبیل پیدا ہو۔
 کافی دیر چلنے کے بعد ایک قبلِ اسلام کے کسی مذھب کی کوئی اجڑی عبادت گاہ جیسی عمارت نظر آئی جس کی چھت کچھ اسطرح گری ہوئی تھی کہ اس کا ملبہ حصار سے باہر گرا ہوا تھا۔ یہاں سے بآسانی ملبہ پر چڑھ کر شہر کے اندر داخل ہوا جا سکتا تھا۔ دل مضبوط کر کہ میں شہر کے اندر چلا آیا۔



بدھ، 20 جولائی، 2016

سیور - باب اول قسط 6 : منزل علم

sayoor-6-manzil-ilm
حنانہ کے ساتھ لہکتے گیت گاتے رات کب گزر گئی کچھ معلوم ہی نہ ہوا۔ صبح طلوع ہونے لگی تو حنانہ خاموش ہو گیا۔ موتی پرندے بن کر اڑنے لگے اور ہر پرندے کے اڑنے پر یوں معلوم ہوتا گویا دل پر رکھے بوجھ اترے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ میں بالکل ہلکا پھلکا ہو گیا اور خواہشات سے خالی ہو گیا۔ میں نے محبت سے اپنے محسن حنانہ پر ہاتھ رکھا جس نے مجھے زندگی کا ایک نہایت اہم درس دیا تھا اور مجھے پابند کرنے والی تمام زنجیروں کو توڑ کر آزاد کر دیا تھا۔ پھر اس حسین وادی آمین پر ایک بار بھرپور نظر ڈال کر میں آگے کو بڑھ گیا۔ سہ پہر کے قریب میں وادی آمین کے اختتام پر پہنچ گیا جہاں میں نے ایک بہت بڑے قلعہ کو اپنے سامنے پایا۔ قلعہ کے حفاظتی انتظامات دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
میں نے بابا صحرائی کے ساتھ زمین کی مختلف جگہوں کے سیر کی تھی جس میں کئی تاریخی عظیم الشان قلعہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایسے خطوں سے بھی ہمارا گزر ہوا جو انسانی آنکھ اور نقشوں سے اوجھل ہیں مگر وہاں طاقتور قومیں بستی ہیں اور ان کی فصیلیں اور قلعہ بیحد بڑے اور مضبوط ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی اس قلعہ کی حجامت اور پہرے کا عشر عشیر تک نہ تھا۔ اس قلعہ کے دو سو چھیاسی دروازے تھے اور ہر دروازہ اس قدر بڑا تھا کہ اس پر اسی فرشتے بطور محافظ کھڑے تھے۔ ہر فرشتہ سرخ رنگ کی چوغہ نما وردی پہنے تھا۔ وردی پر سنہرے رنگ کا شاندار کمربند بھی تھا جس میں شمشیر بامیان، خنجر اور ایک کوڑا لگا ہوا تھا۔ ہر ایک سر پر ایک پگڑی نما کلاہ بھی تھی۔ ان کی آنکھیں ایسی شعلہ بار تھیں کہ ان سے نظریں ملانا اپنے اندر ایک بڑا معرکہ تھا اور ان کے جسم گویا مسلسل چلتی ہوئی بجلی کے بنے ہوئے تھے۔ الغرض یہاں اجازت کے بغیر داخلہ ممکن ہی نہیں تھا۔ میں اگرچہ اجازت یافتہ تھا مگر اس زبردست انتظام کی وجہ سے کچھ گھبراتے ہوئے اندر جانے لگا۔



اتوار، 19 جون، 2016

سیور - باب اول قسط 5: شہر کنز کی سیر

شہر کنز کی سیر
بابا کے تحلیل ہونے کے بعد میں اپنے اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔ یہ تو واضح ہو چکا تھا کہ میری سیر خطرات سے خالی نہیں ہے۔ نجانے ملکہ ہزارہ جیسی یا اس سے بھی متوحش و مہیب کتنی آفتوں سے مزید سامنا کرنا باقی تھا۔ کب کس قدم پر کیسا قاتل سامنے آ جائے کچھ یقین نہیں تھا۔ البتہ اس راستے کے پرخطر نہ ہونے پر بابا کی تحدیث حاصل تھی لہذا میں یہاں مطمئن تھا مگر جلد از جلد طلسم ہزارہ سے جس قدر ممکن ہو فاصلہ اختیار کرنے کا خواہشمند تھا جو عین میرے عقب پر موجود تھا۔ میرا موجودہ محل سفیدی مائل سنہرے ساحل تھے جن کا اختتام بڑے اور خوبصورت پہاڑ پر ہوتا دکھائی دیتا تھا جو سونے کی طرح چمکتا ہوا نظر آتا۔ تمام راستے پر مناسب فاصلوں سے مشعلیں لگی ہوئی تھیں۔ میں ان کے درمیان تیزی سے چلنے لگا کہ عقب سے طلسم ہزارہ کی ہولناک آوازیں ابھی تک سنائی پڑتی تھیں۔
راستہ تکلیف دہ نہیں تھا اور سنہری مٹی پر چلنے سے تھکن کا احساس بیحد کم ہوتا تھا۔ چلتے چلتے آدھا دن گزرا تو میں پہاڑ کے دامن تک پہنچ چکا تھا۔ یہ پہاڑ واقعی ٹھوس سونے سے بنا تھا اور یہی وہ کوہ زر تھا جس پر شہر کنز کی خبر مجھے دی گئی تھی۔ یہاں اور بھی بہت سے لوگ راستوں پر بیٹھے تھے جنہوں نے سونا چاندی وغیرہ جمع کر رکھا تھا۔ گویا ان کا سفر یہیں ختم ہو گیا تھا اور یہ خدا کی بے تحاشہ نعمتوں میں سے محض چند کو منزل مقصود بنا کر بڑی نعمتوں سے کنارہ کر چکے تھے۔
یہاں پہنچ کر میں نے پیچھے رہ جانے والے طلسم ہزارہ کی طرف دیکھا جو یہاں سے سیاہ و خشک روکھی گھٹا کی طرح نظر آ رہا تھا جس میں بے تحاشہ بجلیاں کڑک رہی تھیں اور خوفناک شعلے لپک رہے تھے۔ کوہ زر کے پاس اور اس کے دوسری طرف کا آسمان البتہ شفاف نظر آتا تھا یعنی یہاں موجود کوئی یقیناً شخص اندازہ نہیں کر سکتا کہ ان ہولناک گھٹائوں اور بجلیوں کے حجاب میں درحقیقت کیسی پر خوف و خطر بلاؤں کی دنیا اور تباہی کا سامان نہاں ہے۔ میں اپنی سلامتی پر شکر ادا کرتے ہوئے کچھ دیر آرام کی نیت سے وہیں کوہ زر کے دامن میں ٹھہر گیا یہاں تک کہ شام طلوع ہوئی جس سے سارا نظارہ یکسر تبدیل ہو گیا اور سنہرے ساحلی راستے پر موجود مشعلیں خودبخود روشن ہو گئیں۔ میں نے رات کو اس طرح پھیلتے دیکھا کہ رات کوہ زر پر موجود شہر کنز سے دامن بچا کر پھیلتی ہے گویا شہر میں اندھیرا نہیں ہوتا۔
پہاڑ پر موجود شہر کنز کی روشنیاں مستقل تھیں۔ اس کا مینار خوب روشن نظر آ رہا تھا اور نہایت موزوں فاصلوں پر خوبصورت قمقمے جل رہے تھے۔ میں نے سفر دوبارہ شروع کیا اور پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ سونے کا بنا یہ پہاڑ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔ اس کی دھول سونے اور چاندی کی تھی اور قطار در قطار چاندی کے درخت لہردار پٹیوں کی صورت سجے ہوئے تھے جن کا نظارہ مسافر کو مسحور کیے رکھتا۔۔۔



جمعرات، 9 جون، 2016

پکوڑے کی تاریخ

پکوڑا کس قوم کی ایجاد ہے اور پہلی بار اسے کہاں، کس کے پاس اور کیا کرتے دیکھا گیا؟ مؤرخین کی اکثریت اس پر خاموش ہے۔ ان کی خاموشی کس سبب ہے؟ اس پر بھی پراسرار سی خاموشی ہے۔ ممکن ہے مؤرخین پکوڑا کھانے میں مصروف ہو گئے ہوں۔ یا پھر کھانے کے بعد چکنائی کی وجہ سے قلم نہ پکڑا جاتا ہو اور پھسل پھسل کر نکل جاتا ہو۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو اس کا نقصان یہ نکلا کہ ہم پکوڑے کے نقطہ آغاز کے بارے میں الجھن کا شکار ہو گئے۔
ایک مؤرخ نے اس کا مؤجد ایک مکرانی کو قرار دیا جس نے بیسن کی کچھ ٹکیاں بلاوجہ تیل میں پھینکیں اور چولہا جلانا بھول گیا۔ پھر جب کافی دیر تک وہ نہ پکیں تو مکرانی غصے میں "پکو۔۔۔ ڑے" چلایا اور بس یہی پکوڑوں کا نقطہ آغاز ہے۔
یہ روایت البتہ مجہول ہے اور اس کا روای بھی۔ نیز وہ مکرانی بھی مجہول معلوم ہوتا ہے اور اس کے پکوڑے بھی۔



ہفتہ، 4 جون، 2016

سیور - باب اول قسط نمبر 4: طلسم ہزارہ

طلسم ہزارہ

(سیور کی پچھلی اقساط ترتیب وار پڑھنے کیلئے کلک کر سکتے ہیں: قسط 1 یقین کا نخلستان، قسط 2 آخری کوشش، قسط 3 شعلہ عشق


طلسم ہزارہ

"میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پھر میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو مخلوق بنا دی تاکہ پہچانے"
میں دیر تلک اس واقعہ سے پیدا ہونے والی لذت و کیفیات میں ڈوبا رہا۔بیشک اس دنیا کی بہت بڑی حقیقت مجھ پر عیاں ہوئی تھی اور رب کےرحمان و  رحیم ہونے کی صفات خوب واضح ہو چکی تھی۔
لوح گزر گئی مگر میں اس شاندار تصادم کے باعث پیدا ہونے والے سرور و مستی میں مگن ہوتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ میری زبان سے جاری ہوا:
"الٰہی ہمارے معبود! ہم تجھ سے تیرے قرب کا سیدھا راستہ مانگتے ہیں۔"
بس اتنا کہنا تھا کہ ایک شورش اور بڑا ہنگامہ پیدا ہوگیا۔ سرحد اور اس کے اطراف میں جو کچھ تھا بری طرح لرزنے لگا جیسے ابھی یہ لرزش ہر موجود شئی کا وجود تحلیل کر دے گی۔ ہر سمت سے ایسا شور اٹھنے لگا اور ایسی آوازیں بلند ہونے لگیں جن سے کان واقف نہیں تھے۔ پھر اس ہیجان اور شور و غل میں کثیف دھوئیں کے مرغولے اڑنے لگے جنہوں نے چار سو ڈیرا جما لیا اور دھند نے سرحد کو نگل لیا گویا ایک بالکل عجیب اور نئی جگہ وجود پذیر ہوئی۔ بیرونی ہنگامہ تھم گیا مگر اس نئی جگہ کی ہولناکی نے میرے اندر زبردست ہنگامہ برپا کر دیا۔
دھند  سے چاروں طرف گھرا میں ایک ایسی عجیب جگہ کھڑا تھا جس کا نقشہ بیان کرنا محال ہے۔ یہ دھند گہری تھی جس سے روشنی بیحد کم ہو گئی تھی اور خوف طاری کرنے والا اندھیرا حاوی ہوتا چلا گیا۔۔۔ دھند پراسرار سرگوشیوں کے ساتھ چل رہی تھی جیسے زندہ ہو۔ ۔۔ اور اس دھند کے پیچھے سے ہزاروں سرخ آنکھیں  اِدھر اُدھر دیکھتی تھیں۔۔۔ آنکھیں جو کہ  اپنے آپ میں پوری تھیں اور ان کے ساتھ اورکچھ  جسم نہیں تھا۔۔۔ میرے دل میں خواہش ہوئی کہ بس ان کی توجہ میری طرف نہ ہونے پائے۔ میں راہ فرار تلاش کرنے کیلئے اردگرد تیزی سے نظریں گھمانے لگا۔



بدھ، 25 مئی، 2016

سیور - باب اول قسط نمبر 3: شعلہ عشق



پچھلی اقساط کا خلاصہ: میں، محمد عمر، بائیس سالہ نوجوان جو سچ جاننے اور اپنے سوالات کا جواب پانے کیلئے اپنی زندگی وقف کر چکا تھا۔ دو سال پہلے ایک عجیب واقعہ سے دوچار ہوا کہ رات سو کر اٹھا اور خود کو ایک صحرا میں پایا جہاں میری ملاقات ایک مرد بزرگ سے ہوئی اور ناقابل یقین چیزوں کو دیکھا اور جانا۔ پھر واپس اپنے گھر لوٹا دیا گیا اور اس واقعہ کو محض ایک خواب سمجھ کر فراموش کر بیٹھا۔ پھر دو سال تک اپنے سوالات کے جواب در در ڈھوںڈ کر عاجز آ گیا تو دوبارہ انہی بزرگ کے پاس پہنچا دیا گیا مگر اس بار ہماری ملاقات کا ٹھکانہ ایک برف زار تھا۔ اب آگے پڑھیں۔
(سیور یعنی سیر کا اصل آغاز اب سے ہے البتہ پچھلی دو اقساط پڑھنے کے لائق ہیں اور ان کے لنکس کمنٹس میں موجود ہیں۔)

اس برف زار میں 'یقین کے نخلستان' جیسا نعمت کدہ نہیں تھا (یقین کے نخلستان کے بارے میں جاننے کیلئے پہلی قسط پڑھیے)۔ یہاں ہر روز ایک مخصوص وقت پر ہمارے برف کے بنے گھر کی برفیلی زمین کے نیچے دو گہرے دھبے سے پڑ جاتے۔ میں انہیں کھودتا تو دو درمیانے حجم کی سرمئی مچھلیاں اندر سے تڑپتی ہوئی برآمد ہوتیں۔ پھر آگ جلانے کی مشقت کرتا اور انہیں بناتا۔ ابتداء میں بابا کے حکم پر دونوں مچھلیاں میں ہی کھا لیا کرتا کہ بس یہی دن بھر کی خوراک ہوتی اور اس کے سوا پورے دن کچھ اور میسر نہ آتا۔ حالانکہ صحرا کے برخلاف یہاں کچھ جانور بھی نظر آتے مگر وہ ہمارا رزق نہیں تھے۔ شمس و قمر کی گردش کے ساتھ مجھ میں کچھ تحمل آتا گیا تو خوراک اور کم کر دی گئی۔ اب بابا ایک مچھلی استعمال کرتے اور میں بھی ایک پر اکتفا کرتا۔ اس سے قبل بابا کی خوراک کیا رہی میں اس سے لاعلم ہوں کہ میں نے انہیں کسی نعمت سے لطف اندوز ہوتے نہیں دیکھا۔ پھر ایک صبح بابا نے سفر کا حکم دیا۔



ہفتہ، 14 مئی، 2016

سیور - باب اول قسط نمبر 2: آخری کوشش

آج تیار ہوتے ہوئے میری حرکات میں وہ تیزی ہرگز نہ تھی جو دو سال پہلے تک میرے در و دیوار دیکھنے کے عادی تھے۔ اب ہاتھ کچھ سست چلتے تھے، دل کو جبراً منانا پڑتا تھا، قدم گھسیٹنے پڑتے تھے۔ دو سال! جی ہاں۔ دو سال ہو چکے تھے اس خواب کو دیکھے۔۔۔ بابا صحرائی۔۔۔ یقین کا نخلستان۔۔۔ جس کی سیر کے بعد میرے اگلے کئی دن نہایت تکلیف دہ گزرے۔ کیا آشنا کیا نا آشنا، میں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اپنا قصہ بتاتا۔ نتیجہ؟ کوئی روبرو ہی ہنس دیتا اور کوئی جانے کے بعد۔ کسی نے چند روز آرام کرنے کا مشورہ دیا تو کسی نے اچھے طبیب سے رجوع کا۔ حتی کہ لوگوں کی منطقی باتیں اور دلائل سن کر مجھے یقین آ ہی گیا کہ یہ محض ایک خواب ہی تھا۔ ہاں مجھے اب تک وہاں کی ہوا یاد تھی۔۔۔ ہاں بابا کی ضیافت کا ذائقہ اب تک میری زبان پر تازہ تھا۔۔۔ ہاں نخلستان کا کبھی نہ گرم ہونے والا پانی آج بھی کہیں میرے اندر بار بار بھڑکنے والی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں مدد کرتا۔۔۔ اور ہاں۔۔۔ بابا کے پڑھے اشعار۔۔۔ آج بھی انہیں یاد کر کہ ناقابل بیان سرور ملتا۔ مگر ان سب باتوں سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے؟ خواب جتنے بھی اصلی لگیں خواب ہی ہوتے ہیں۔ خرد نگر میں یقین کے نخلستان کی کوئی جگہ نہیں تھی اور میں دانش کا سودائی تھا۔ ایسی باتیں مجھے واقعی زیب نہیں دیتی تھیں۔ بس صحرا کا تذکرہ تک میں نے خود پر حرام کر لیا۔
پھر دو سال مستقل میں اتنا چلا کہ ویسے کئی صحرا پار ہوتے تھے۔ کون سا در تھا جو میری پر جستجو کھٹک سے محفوظ رہا ہو؟ علم و دانش کے بلند و بالا نام اور ان کے مسکن میرے گھر کی دیواروں پر چسپاں تھے۔ کوئی علمی محفل ہو یا کوئی تقریر و مباحثہ، میری شرکت وہاں ایسے ہی لازم تھی جیسے زندگی کیلئے مقصد۔ تمام مجالس علمی میرے نام سے خوب واقف ہو چکے تھے اور ہر محفل کا پہلا دعوت نامہ مجھے ہی بھیجا جاتا۔ ان دو سالوں میں دنیا کے ہر فلسفے اور خیال کے لوگوں سے میں ملا اور انہیں سمجھا۔ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے میں نے تائید میں سر بھی خوب ہلایا مگر سچ کہوں تو ہر شرکت کے بعد دل بدظن ہوتا چلا جاتا۔ علم و ترقی کے نام پر عجب تماشہ لگا ہوا تھا۔ کہیں ایک مشہور یونانی اپنے دیس کے فلسفے کی تمام تر حماقتوں کے ساتھ جلوہ افروز تھا جس نے دنیا سے دنیا کی روح نکال کر اسے بے جان کر دیا تھا۔ کہیں کوئی اپنے مورث اعلی کو لنگور اور اس عقیدے کو علم کی معراج سمجھ کر معاشرے کو جہل کی پستیوں میں دھکیل رہا تھا۔ میں اکثر سوچا کرتا کہ یہ بقیہ ہلتے سر بھی میری طرح مجبوراً حرکت پذیر ہیں یا میں واقعی حماقت زدہ ہجوم میں گھرا بیٹھا ہوں۔ دو سال کے تجربے اور مشاہدے کے بعد افشائے راز ہوا کہ دونوں قیاس ہی اپنی اپنی جگہ درست تھے۔