عادل نیوز کی قلفیاں
You Would Start Loving Urdu News After this!
تھوڑی پارلیمنٹ سے بھی تو وفا ہونی چاہیے۔ ۔
خواجہ ایتھکس کے اس شکوے سے پاکستان میں ہفتہ سیاست کا باقاعدہ طور پرآغاز ہوا اور خواجہ صاحب کہ اس شعر نے سچی مچی والی آگ لگا دی۔ آئیے اس ہفتے کی سیاسی کارگزاری اور شکوہء ایتھکس کے پسِ منظر پر نظرڈالتے ہیں۔
خواجہ ایتھکس کے اس شکوے سے پاکستان میں ہفتہ سیاست کا باقاعدہ طور پرآغاز ہوا اور خواجہ صاحب کہ اس شعر نے سچی مچی والی آگ لگا دی۔ آئیے اس ہفتے کی سیاسی کارگزاری اور شکوہء ایتھکس کے پسِ منظر پر نظرڈالتے ہیں۔
یمن تنازعہ پر پاکستانی قیادت نے روایتی سستی کا مظاہرہ کیا۔ "ہم فوج بھیج دینگے۔" "شاید ہم فوج دینگے۔" "کیا ہم فوج بھیج دیں گے؟" "کہیں فوج نہ ہوجائے!" کرتے کرتے جب کئی ہفتے گزر گئے تو باغی قبیلے کے سردار امیر البغاوت نے تنگ آ کر خود میاں بردبار شریف صاحب کو کال ملا کر دریافت کیا "میاں صاحب اب فیصلہ لے بھی لیجیے اور ہمیں بتا دیجیے کہ آپ لوگ فوج بھیج رہے ہیں یا نہیں؟ میرے سپاہی آگے پیچھے ہو ہو کہ تنگ آ چکے ہیں۔" امیر البغاوت کی بدقسمتی کہ میاں بردبار شریف کے ہاتھ اس وقت پائے والے سالن کی وجہ سے خاصے اسٹیکی ہو رہے تھے اس لیے انہوں نے مزید بات کرنے کے لیے فون کا رسیور صدر مجنون کے کان سے چپکا دیا۔ آگے کی گفتگو کچھ اس طرح سے ہوئی:
صدر مجنون: جی کون؟
سردار: میں امیر البغاوت عرض کر رہا ہوں۔
صدر: کون امیر البغاوت؟
سردار: اجی حوثی قبیلے سے۔
صدر: (مسکراتے ہوئے) یہ کیسا قبیلہ ہوا بھئی؟
سردار: جناب میں یمن سے بات کر رہا ہوں۔
صدر: نہیں آپ تو مجھ سے بات کر رہے ہیں۔
سردار: میرا مطلب میرا تعلق یمن سے ہے۔
صدر: بہت خوب۔ کونسی جگہ ہے یہ؟
سردار: اِدھر اُدھر کی چھوڑیے یہ بتائیے کہ آپ فوج بھیج رہے ہیں یا نہیں؟ سچ بتائیے گا قسم ہے آپ کو!
صدر: (زور زور سے رونے لگے)
سردار: (گھبرا کر) ارے آُپ کو کیا ہوا جناب!!
صدر: گھبرائیے مت۔ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ مجھ سے پہلی بار کسی نے اتنی بڑی بات پوچھ لی ہے۔ (پھرٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولے) ویسے ایک بات کہوں؟؟
سردار: جی کہیے!!
صدر: میرے کہنے پر تو ایوانِ صدر کا دربان اپنی جگہ سے نہیں ہلتا میں فوج کیسے بھیجوں؟؟ یا نہ بھیجوں؟؟؟
اس کے ساتھ ہی دوسری طرف سے رابطہ منقطع کردیا گیا۔ سننے میں آیا ہے کہ اس گفتگو کہ بعد سے سردار پر ہسٹیریا کے دورے پڑ رہے ہیں۔ کبھی بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگ جاتے ہیں اور اس قدر ہنستے ہیں کہ لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں تو کبھی کھڑے کھڑے رونے اور اس قدر روتے ہیں کہ ہچکیاں لگ جاتی ہیں اور کبھی بندوق اٹھا کر اندھا دھند ہوائی فائرنگ شروع کردیتے ہیں۔ خیر ۔ ۔
آخرکار پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہوا اور اسی میں انصاف خان صاحب بھی براہِ راست کنٹینر سے اتر کر تشرف لائے جس پر خواجہ ایتھکس نے یہ شکوہ کیا۔ اس شکوے کے بعد ریاستِ انصاف کے باشندوں نے خواجہ صاحب کو نت نئے ناموں سے جی بھر کہ نوازا اور اب تک نواز رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک نواز ہے تب تک نوازتے ہی رہینگے۔ الغرض ان اشعار سے خوب انتشار پھیلا اور ریاستِ انصاف اور ریاست ہائے میٹرو کے باسیوں کے درمیان کئی جھڑپوں کی خبر بھی سننے میں آئی ہے۔ ذرائع سے پتہ لگا ہے کہ ریاست ہائے میٹرو کے باشندے مخالفین کو راہ چلتے ٹکر جائیں تو منہ پر کپڑا ڈال 'شرمانے' کا اشارہ کرتے ہیں اور ریاست انصاف کے باشندے جواباً اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر جھرجھریاں لیتے ہیں اور انہیں چڑاتے ہیں۔ صد شکر کہ ان دونوں مخالفین میں بوری پیک کرنے کا رواج نہیں اس لیے ان جھڑپوں میں اب کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی البتہ دوسروں کی عزتیں اور اپنی اخلاقیات کے جنازے لوگ فی سیکنڈ کے حساب سے اٹھا رہے ہیں۔ بہرحال اجلاس میں یہ طے پایا گیا کہ پاکستان اس تنازعے میں اپنی فوج نہیں بھیجے گا جس کے بعد سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر 'رول ریورسل' کا عمل شروع ہوچکا ہے یعنی ایک مخصوص طبقہ اپنی گالیاں اور تنقید واپس نگل رہا ہے اور دوسرا مخصوص طبقہ دوبارہ اگلنے کے لیے تیار ہے۔
اجلاس کے بعد سیاسی نالے کا دھارا دوبارہ کراچی کے حلقہ ‘NA-Kar 420’ کی جانب مڑ گیا اور خوب زور و شور سے بہنے لگا۔ عزت مآب انصاف خان خود اس حلقے میں تشریف لائے اور کارکنان سے خطاب کیا۔ اس اہم موقعے پر آپ کی اہلیہ 'ملکہ انصاف' بھی آپ کے ہمراہ تھیں جس پر ڈیفنڈنگ چیمپیئن مرشدِ خاص عرف بھائی جان لندن والے نے فوراً اپنے کارکنان کو بھابھی کے لیے سونے کے سیٹ کا بندوبست کرنے کا حکم دیا۔ حکم کی تعمیل البتہ وقت پر نہ کی جا سکی کیونکہ بھائی کا اعلان سنتے ہی تمام جیولرز اپنی جیولری شاپس بند کر کہ بھاگ کھڑے ہوئے۔
"ملکہ انصاف کوئی عام خاتون نہیں بلکہ سیاست کے پیچ و خم سے خوب اچھی طرح واقف ہیں اور اسی لیے انہیں آج کے اہم جلسے میں بھی لایا گیا ہے تاکہ کارکنان ان کے سیاسی تجزیات سے مستفید ہو سکیں۔" یہ کہنا تھا انصاف پسند ترجمان کا۔ انصاف خان صاحب اور ملکہ انصاف کے درمیان ہونے والی سیاسی گفتگو اس دعوے کی بھرپور حمایت بھی کرتی نظر آتی ہے۔ اندرونی ذرائع سے پتہ لگا ہے کہ جب انصاف خان صاحب نے ملکہ سے سیاسی امور پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ:
"دیکھیں میں سمجھتا ہوں پاکستان کو بلا واسطہ جمہوریت کی ضرورت ہے جہاں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہو سکے۔ لیکن پاکستان کی ریاست کا رقبہ بلا واسطہ جمہوریت کے لیے سازگار نہیں نہ ہی عوام یکجا ہو کر کسی مجلسی مسئلے پر غور و پرداخت کے لیے آمادہ ہے۔ قدیم یونان بلاواسطہ جمہورت کا مضبوط قلعہ بھی انہی وجوہات کی باعث زمین دوز ہوا۔ مگر میرا ماننا ہے کہ ملک کا بلدیاتی نظام مضبوط ہونے کی صورت میں میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو پائے گا۔ اگر پرانے بلدیاتی قوانین میں ترمیمات کر کہ ان خامیوں کو دور کردیا جائے اور جامع قانون سازی کے بعد انتخابات منعقد کرائے جائیں تو ایسا ممکن الحصول ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟"
ملکہ انصاف نے آنکھیں گول گول گھما کر جواب دیا: "میرا خیال ہے گرمی کافی زیادہ ہے ۔ ۔ کیوں نہ ایک ایک قلفی ہوجائے!"
ٹی وی چینلز نے ملکہ کا جواب فرمانِ شاہی اور آئین کی مقدس ترین شق سمجھ کر پورے ادب کے ساتھ بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا جسے پڑھ کر ملک کے آدھے سے زیادہ دانشور اور تجزیہ نگار بے ہوش ہوگئے اور باقی آدھے قلفی کھانے چلے گئے۔ پورے ملک میں شور و غل مچ گیا۔ جس دکان سے آپ نے قلفی نوش فرمائی اس کا نام 'انصاف پسند قلفی ہاؤس' رکھ دیا گیا جبکہ پیر لندن بھائی نے اپنے کارکنان سے اس دکان کی 'خصوصی حفاظت' کرنے کی اپیل کردی۔ ذرائع سے پتہ لگا ہے کہ دکاندار سے حفاظت کی مد میں ماہانہ لی جانے والی رقم اب روزانہ کی بنیاد پر لی جائے گی۔
اسی سیاسی گہما گہمی میں ایک اور سیاسی تنظیم کا کیمپ ایسا بھی نظر آیا جس کے اطراف میں جڑوں سمیت اکھڑی ہوئی گھاس کی خوبصورت زیبائش تھی اور ایک مردِ زال کیمپ کے باہر منہ لٹکائے کھڑے تھے (یہ زال فارسی والا زال ہے یعنی بزرگ ۔ ۔ خدارا اسے سندھی والی سگھڑ زال مت سمجھ لیجیےگا)۔ ہمارے سینئر ترین (اور اکلوتے) صحافیۤ/کیمرہ مین/رپورٹر 'رشید خبری' ان کی خیر خبر لینے گئے تو بزرگ کبیدہ خاطر ہو کر کہنے لگے "میاں چھوڑو۔ ۔ اب نظر آئے ہیں ہم تمہیں؟ ہم کب سے یہاں تمبو گاڑے کھڑے ہیں مگر میڈیا ہمارے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جیسا لفنگے عاشقوں کے ساتھ علاقے کی شعلہ جوالہ۔ ۔ یعنی فُل ٹائم اگنور۔۔؟ حالانکہ ہم نے اس علاقے کی گراس اور روٹ دونوں پر انتہائی خوبصورت کام کیا ہے (یہ کہتے ہوئے انہوں نے گھاس کی زیبائش کی طرف اشارہ بھی کیا)۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ ہمیں مناسب کوریج دی جائے۔" یہ کہ کر بزرگ دل برداشتہ ہوکر واپس کیمپ میں چلے گئے۔ تو ناظرین ہم نے ان کی گزارش بھی آپ تک پہنچا دی کیونکہ عادل نیوز ایک مکمل غیر جانبدارانہ پلیٹ فارم ہے جس پر سب کو برابر کوریج ملتی ہے۔ یقینی طور پر یہ پارٹی پاکستان کی ایک بہت بڑی عوامی قوت ہے اور کئی سالوں سے میدانِ عمل میں موجود ہے۔ ۔ کسی کو ایسے اگنور کرنا درست نہیں ۔ ۔ رشید خبری صاحب بزرگ سے اس جماعت کا نام پوچھنا بھول گئے ۔ ۔ ورنہ ہم ضرور آپ کو بتا دیتے۔ بہرحال بڑی مشہور پارٹی ہے۔ ۔ ۔ خیر ۔ ۔
تو ناظرین یہ تھی اس ہفتے کی عادل نیوز۔ کیسی لگی کس کس کو لگی اور کہاں کہاں لگی اس کا اظہار کمنٹس میں ضرور کیجیے گا۔ انشاء اللہ پھر حاضر ہونگے تب تک کے لیے اجازت دیجیے۔ کیمرہ مین رشید خبری کے ساتھ ۔ ۔ فراز عادل ۔ ۔ پاکستان!
؎ فراز عادل
سردار: جناب میں یمن سے بات کر رہا ہوں۔
صدر: نہیں آپ تو مجھ سے بات کر رہے ہیں۔
سردار: میرا مطلب میرا تعلق یمن سے ہے۔
صدر: بہت خوب۔ کونسی جگہ ہے یہ؟
سردار: اِدھر اُدھر کی چھوڑیے یہ بتائیے کہ آپ فوج بھیج رہے ہیں یا نہیں؟ سچ بتائیے گا قسم ہے آپ کو!
صدر: (زور زور سے رونے لگے)
سردار: (گھبرا کر) ارے آُپ کو کیا ہوا جناب!!
صدر: گھبرائیے مت۔ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ مجھ سے پہلی بار کسی نے اتنی بڑی بات پوچھ لی ہے۔ (پھرٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولے) ویسے ایک بات کہوں؟؟
سردار: جی کہیے!!
صدر: میرے کہنے پر تو ایوانِ صدر کا دربان اپنی جگہ سے نہیں ہلتا میں فوج کیسے بھیجوں؟؟ یا نہ بھیجوں؟؟؟
اس کے ساتھ ہی دوسری طرف سے رابطہ منقطع کردیا گیا۔ سننے میں آیا ہے کہ اس گفتگو کہ بعد سے سردار پر ہسٹیریا کے دورے پڑ رہے ہیں۔ کبھی بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگ جاتے ہیں اور اس قدر ہنستے ہیں کہ لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں تو کبھی کھڑے کھڑے رونے اور اس قدر روتے ہیں کہ ہچکیاں لگ جاتی ہیں اور کبھی بندوق اٹھا کر اندھا دھند ہوائی فائرنگ شروع کردیتے ہیں۔ خیر ۔ ۔
آخرکار پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہوا اور اسی میں انصاف خان صاحب بھی براہِ راست کنٹینر سے اتر کر تشرف لائے جس پر خواجہ ایتھکس نے یہ شکوہ کیا۔ اس شکوے کے بعد ریاستِ انصاف کے باشندوں نے خواجہ صاحب کو نت نئے ناموں سے جی بھر کہ نوازا اور اب تک نواز رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک نواز ہے تب تک نوازتے ہی رہینگے۔ الغرض ان اشعار سے خوب انتشار پھیلا اور ریاستِ انصاف اور ریاست ہائے میٹرو کے باسیوں کے درمیان کئی جھڑپوں کی خبر بھی سننے میں آئی ہے۔ ذرائع سے پتہ لگا ہے کہ ریاست ہائے میٹرو کے باشندے مخالفین کو راہ چلتے ٹکر جائیں تو منہ پر کپڑا ڈال 'شرمانے' کا اشارہ کرتے ہیں اور ریاست انصاف کے باشندے جواباً اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر جھرجھریاں لیتے ہیں اور انہیں چڑاتے ہیں۔ صد شکر کہ ان دونوں مخالفین میں بوری پیک کرنے کا رواج نہیں اس لیے ان جھڑپوں میں اب کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی البتہ دوسروں کی عزتیں اور اپنی اخلاقیات کے جنازے لوگ فی سیکنڈ کے حساب سے اٹھا رہے ہیں۔ بہرحال اجلاس میں یہ طے پایا گیا کہ پاکستان اس تنازعے میں اپنی فوج نہیں بھیجے گا جس کے بعد سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر 'رول ریورسل' کا عمل شروع ہوچکا ہے یعنی ایک مخصوص طبقہ اپنی گالیاں اور تنقید واپس نگل رہا ہے اور دوسرا مخصوص طبقہ دوبارہ اگلنے کے لیے تیار ہے۔
اجلاس کے بعد سیاسی نالے کا دھارا دوبارہ کراچی کے حلقہ ‘NA-Kar 420’ کی جانب مڑ گیا اور خوب زور و شور سے بہنے لگا۔ عزت مآب انصاف خان خود اس حلقے میں تشریف لائے اور کارکنان سے خطاب کیا۔ اس اہم موقعے پر آپ کی اہلیہ 'ملکہ انصاف' بھی آپ کے ہمراہ تھیں جس پر ڈیفنڈنگ چیمپیئن مرشدِ خاص عرف بھائی جان لندن والے نے فوراً اپنے کارکنان کو بھابھی کے لیے سونے کے سیٹ کا بندوبست کرنے کا حکم دیا۔ حکم کی تعمیل البتہ وقت پر نہ کی جا سکی کیونکہ بھائی کا اعلان سنتے ہی تمام جیولرز اپنی جیولری شاپس بند کر کہ بھاگ کھڑے ہوئے۔
"ملکہ انصاف کوئی عام خاتون نہیں بلکہ سیاست کے پیچ و خم سے خوب اچھی طرح واقف ہیں اور اسی لیے انہیں آج کے اہم جلسے میں بھی لایا گیا ہے تاکہ کارکنان ان کے سیاسی تجزیات سے مستفید ہو سکیں۔" یہ کہنا تھا انصاف پسند ترجمان کا۔ انصاف خان صاحب اور ملکہ انصاف کے درمیان ہونے والی سیاسی گفتگو اس دعوے کی بھرپور حمایت بھی کرتی نظر آتی ہے۔ اندرونی ذرائع سے پتہ لگا ہے کہ جب انصاف خان صاحب نے ملکہ سے سیاسی امور پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ:
"دیکھیں میں سمجھتا ہوں پاکستان کو بلا واسطہ جمہوریت کی ضرورت ہے جہاں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہو سکے۔ لیکن پاکستان کی ریاست کا رقبہ بلا واسطہ جمہوریت کے لیے سازگار نہیں نہ ہی عوام یکجا ہو کر کسی مجلسی مسئلے پر غور و پرداخت کے لیے آمادہ ہے۔ قدیم یونان بلاواسطہ جمہورت کا مضبوط قلعہ بھی انہی وجوہات کی باعث زمین دوز ہوا۔ مگر میرا ماننا ہے کہ ملک کا بلدیاتی نظام مضبوط ہونے کی صورت میں میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو پائے گا۔ اگر پرانے بلدیاتی قوانین میں ترمیمات کر کہ ان خامیوں کو دور کردیا جائے اور جامع قانون سازی کے بعد انتخابات منعقد کرائے جائیں تو ایسا ممکن الحصول ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟"
ملکہ انصاف نے آنکھیں گول گول گھما کر جواب دیا: "میرا خیال ہے گرمی کافی زیادہ ہے ۔ ۔ کیوں نہ ایک ایک قلفی ہوجائے!"
ٹی وی چینلز نے ملکہ کا جواب فرمانِ شاہی اور آئین کی مقدس ترین شق سمجھ کر پورے ادب کے ساتھ بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا جسے پڑھ کر ملک کے آدھے سے زیادہ دانشور اور تجزیہ نگار بے ہوش ہوگئے اور باقی آدھے قلفی کھانے چلے گئے۔ پورے ملک میں شور و غل مچ گیا۔ جس دکان سے آپ نے قلفی نوش فرمائی اس کا نام 'انصاف پسند قلفی ہاؤس' رکھ دیا گیا جبکہ پیر لندن بھائی نے اپنے کارکنان سے اس دکان کی 'خصوصی حفاظت' کرنے کی اپیل کردی۔ ذرائع سے پتہ لگا ہے کہ دکاندار سے حفاظت کی مد میں ماہانہ لی جانے والی رقم اب روزانہ کی بنیاد پر لی جائے گی۔
اسی سیاسی گہما گہمی میں ایک اور سیاسی تنظیم کا کیمپ ایسا بھی نظر آیا جس کے اطراف میں جڑوں سمیت اکھڑی ہوئی گھاس کی خوبصورت زیبائش تھی اور ایک مردِ زال کیمپ کے باہر منہ لٹکائے کھڑے تھے (یہ زال فارسی والا زال ہے یعنی بزرگ ۔ ۔ خدارا اسے سندھی والی سگھڑ زال مت سمجھ لیجیےگا)۔ ہمارے سینئر ترین (اور اکلوتے) صحافیۤ/کیمرہ مین/رپورٹر 'رشید خبری' ان کی خیر خبر لینے گئے تو بزرگ کبیدہ خاطر ہو کر کہنے لگے "میاں چھوڑو۔ ۔ اب نظر آئے ہیں ہم تمہیں؟ ہم کب سے یہاں تمبو گاڑے کھڑے ہیں مگر میڈیا ہمارے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جیسا لفنگے عاشقوں کے ساتھ علاقے کی شعلہ جوالہ۔ ۔ یعنی فُل ٹائم اگنور۔۔؟ حالانکہ ہم نے اس علاقے کی گراس اور روٹ دونوں پر انتہائی خوبصورت کام کیا ہے (یہ کہتے ہوئے انہوں نے گھاس کی زیبائش کی طرف اشارہ بھی کیا)۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ ہمیں مناسب کوریج دی جائے۔" یہ کہ کر بزرگ دل برداشتہ ہوکر واپس کیمپ میں چلے گئے۔ تو ناظرین ہم نے ان کی گزارش بھی آپ تک پہنچا دی کیونکہ عادل نیوز ایک مکمل غیر جانبدارانہ پلیٹ فارم ہے جس پر سب کو برابر کوریج ملتی ہے۔ یقینی طور پر یہ پارٹی پاکستان کی ایک بہت بڑی عوامی قوت ہے اور کئی سالوں سے میدانِ عمل میں موجود ہے۔ ۔ کسی کو ایسے اگنور کرنا درست نہیں ۔ ۔ رشید خبری صاحب بزرگ سے اس جماعت کا نام پوچھنا بھول گئے ۔ ۔ ورنہ ہم ضرور آپ کو بتا دیتے۔ بہرحال بڑی مشہور پارٹی ہے۔ ۔ ۔ خیر ۔ ۔
تو ناظرین یہ تھی اس ہفتے کی عادل نیوز۔ کیسی لگی کس کس کو لگی اور کہاں کہاں لگی اس کا اظہار کمنٹس میں ضرور کیجیے گا۔ انشاء اللہ پھر حاضر ہونگے تب تک کے لیے اجازت دیجیے۔ کیمرہ مین رشید خبری کے ساتھ ۔ ۔ فراز عادل ۔ ۔ پاکستان!
؎ فراز عادل
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں