ہفتہ، 25 اپریل، 2015

ڈراؤنی کہانیاں: غلطیاں حصہ اول


غلطیاں ۔ ۔

(پہلا حصہ)

نوٹ: کمزور دل کے افراد نہ پڑھیں!

Read  A New Urdu Story Every Week By Faraz Adil
Faraz Adils' Urdu horror story "Ghaltyan 1" ٹریسی کو رشتے داروں کی طرف سے دی جانے والی دعوتوں میں جانے سے شدید چڑ تھی۔ آج بھی اس نے صاف انکار کر دیا تھا۔ "ابھی پچھلے ہفتے ہی تو انکل ڈیوڈ نے ہائی ٹی کی دعوت دی تھی۔ اب پھر ڈنر؟ میں کہیں نہیں جانے والی۔" اس نے چڑچڑے انداز میں اعلان کیا۔ "میں جانتا ہوں تمہارے نہ جانے کی اصل وجہ کیا ہے؟" ٹرسٹن نے پراسرار انداز میں کہا۔

ٹرسٹن اس سے دو سال چھوٹا تھا اور ہر چھوٹے بھائی کی طرح اس کا پسندیدہ کام بھی اپنی بہن کو تنگ کرنا ہی تھا۔

"کیا؟ کیا جانتے ہو تم؟؟" وہ اچھل پڑی۔ "تمہارا وہ فضول سا۔ ۔ ۔" اس نے شرارتی انداز میں بات ادھوری چھوڑ دی۔ "فضول سا کیا؟" ٹریسی نے ڈوبتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ رابرٹ اور جینیفر بھی کاموں سے ہاتھ روک کر اپنے بچوں کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ "تمہارا وہ فضول سا نیا جاسوسی ناول۔ جسے پڑھنے کے لیے بے تاب ہو تم۔" اس نے شریر لہجے میں کہا اور ٹریسی کی رکی ہوئی سانس بحال ہوگئی۔ اسے لگا تھا کہ ٹرسٹن کو فرینک کے بارے میں معلوم ہو چکا ہے۔ وہ ابھی اس کے بارے میں گھر پر کچھ بتانا نہیں چاہتی تھی۔ اور یہ فرینک سے متعلق تھا بھی نہیں۔ آج فرینک نے اس سے چوری چھپے گیراج میں ملنے نہیں آنا تھا کیونکہ وہ اپنے ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف تھا۔ آج اس کے گھر پر رکنے کا مقصد واقعی اس کی پسندیدہ جاسوسی سیریز کی نئی کتاب پڑھنا تھا۔ رابرٹ اور جینیفر بھی مسکراتے ہوئے دوبارہ تیاریوں میں مشغول ہوگئے۔ ساری تیاریاں مکمل ہونے کے بعد گھر سے نکلتے ہوئے ٹرسٹن نے پلٹ کر ہانک لگائی "ٹریسی ایک بات بتاؤں؟" "بولو و و!!" وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔ "اس کہانی اصل مجرم فورڈ ہی ہے" اس نے زور سے اعلان کیا اور باہر دوڑ لگا دی۔ ٹریسی اسے پیچھے سے برا بھلا بولتی رہ گئی۔
دروازہ اچھی طرح لاک کرنے کے بعد ٹریسی نے سکون کا سانس لیا اور اپنے آرام دہ بیڈ پر پر لیٹ کر کتاب کھول لی۔ اس میں مرکزی کردار فورڈ کا ہی تھا۔ اب مصیبت یہ تھی کہ فورڈ جو بھی کام اپنے کردار کو مثبت ثابت کرنے کے لیے کرتا یا جو بھی ڈائیلاگ ادا کرتا اس پر ٹریسی کو شدید کوفت ہوتی کیونکہ اس کے ذہن میں بار بار ٹرسٹن کا فقرہ "فورڈ ہی اصل مجرم ہے" گونج رہا تھا۔ کچھ ہی صفحے پلٹنے کے بعد اسے بیزاری ہونے لگی اور اس نے کتاب بند کر کہ کونے میں پھینک دی۔ ٹرسٹن نے واقعی بہت بد تمیزی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کی نئی کتاب کا مزہ کرکرا ہوگیا تھا اور اس کے گھر پر رکنے کا مقصد بھی ختم ہوچکا تھا۔ وہ وقت گزاری کے لیے ٹیرس پر چلی گئی۔
ان کا گھر پورٹ آرتھر کی مشرقی حد پر واقع تھا جہاں آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ علاقہ اب تک رہائشی جگہ کے بجائے جنگلات کا منظر پیش کرتا اور یہاں لگ بھگ ہر 300 میٹر کے بعد بمشکل ایک بنگلہ بنا ہوا تھا جبکہ پورے علاقے میں صرف 10 گھر تھے۔ فرینک کا گھر اس کے گھر سے صرف 3 گھر چھوڑ کر تھا مگر ان کے بیچ فاصلہ اور درخت اتنے تھے کہ اس کی جھلک تک نہ دکھائی دیتی۔ پورٹ آرتھر میں سال کے بیشتر دن بارش ہوتی تھی اور آسمان ہر وقت سرمئی لبریز بادلوں سے آراستہ رہتا جو چوبیس گھنٹوں میں کسی بھی وقت برس پڑنے کیلیے آمادہ رہتے۔ آج غیر متوقع طور پر حبس کا زور ٹوٹا ہوا تھا اور خوب یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں۔ ٹیرس سے باہر کا نظارہ گھپ اندھیرے میں بادِ صرصر کے تھپیڑوں سے ہلنے والے درختوں کے مبہم سائے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ پراسرار سی خاموشی میں تھوڑے تھوڑے وقفے بعد دور جنگل میں کسی اکیلے بھیڑیے کی وحشت بھری ہوک اٹھتی اور ٹریسی کا دل بیٹھ سا جاتا۔ کچھ ہی دیر میں وہ واپس اپنے کمرے میں آگئی۔
اکیلا پن دور کرنے کے لیے اس نے لیپ ٹاپ کھول کر فیس بک لگا لیا۔ اس کی ایک فیس بک سہیلی نے ایک ڈراؤنی فلم دیکھنے کا اسٹیٹس ڈالا ہوا تھا۔ عنوان اور سرورق سے فلم خاصی دلچسپ لگ رہی تھی۔ اس نے فوراً فلم ڈاؤن لوڈ کر ڈالی۔ "ڈر کو بھگانے کا یہی سب اچھا طریقہ ہے ٹریسی ۔ ۔ ویسے بھی آخر ڈر کسی چیز کا ہے؟ کونسا یہ جن بھوت اصل میں ہوتے ہیں۔" اس نے اپنے آپ کو خوب تسلیاں دیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس پر چھایا ہوا ہلکہ ہلکہ سا خوف لاشعور کے دبیز پردے کے پیچھے جا کر کہیں چھپ گیا اور باہر صرف ایک بہادر ٹریسی بچی۔ "لائٹ بھی بند کردینی چاہیے ۔ ۔ ڈراؤنی فلم کا اصل مزہ تو ایسا ہی ماحول بنا کر دیکھنے میں ہے۔" اس نے اٹھ کر اپنے کمرے کی بتی بجھا دی۔ گھر میں ویسے ہی خاصا اندھیرا تھا صرف ایک آدھ بلب مین ہال میں جل رہا تھا جس کی روشنی اس کے کمرے تک بالکل نہ پہنچتی تھی۔ خوابناک ماحول بنا کر وہ مطمئن ہوگئی اور فلم لگا کر بیٹھ گئی۔ فلم واقعی دل دہلا دینے والی تھی۔ ایک چھوٹی بچی جس کے کمرے میں پڑی گڑیا کے اندر ایک بدروح قید تھی جو ایک ایک کر کہ سارے گھر والوں کا قتل کرتی ہے۔ اس کے خون کرنے کا طریقہ بھی بیحد ہولناک سا تھا۔ کسی کے سر میں آری مار کر تو کسی کا نرخرہ چھری سے کاٹ کر۔ ٹرانس کے عالم میں اس نے پوری فلم تو ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے دیکھ لی مگر فلم ختم ہونے تک ٹریسی کی اپنی حالت غیر ہوچکی تھی۔ فلم ختم ہوتے ہی لیپ ٹاپ کی بیٹری بھی جواب دے گئی اور وہ خودکار طور پر مکمل آف ہوگیا۔ اب کمرے میں روشنی کی ایک کرن تک نہ تھی۔ ٹریسی نے اٹھنے کی کوشش کی تو اس کے دماغ نے کئی گھنٹیاں ایک ساتھ بجا کر اسے تنبیہ کی کہ ایسا کرنا درست نہیں۔ کیا خبر اس اندھیرے میں زمین پر پہلا قدم رکھتے ہی اس پر کوئی انہونی چیز حملہ کردے؟ اس نے بیڈ پر پڑا اپنا موبائل فون ڈھونڈنے کیلیے ہاتھ پیر مارے کہ اتنے میں دروازے پر زور کی آواز آئی ۔ ۔ "دھم ۔ ۔ دھم ۔ ۔!!"
ٹریسی کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ رات کے اس وقت کبھی کوئی ملاقاتی ان کے ہاں نہ آٰیا تھا اور گھر والوں کے واپس لوٹنے میں قریباً دو گھنٹ
ۓ باقی تھے۔ "پھر یہ کون ہوسکتا ہے؟" اس کے سہمے ہوئے دل نے اس سے سوال کیا۔ ٹریسی کچھ دیر ساکت بیڈ پر بیٹھی رہی مگر دوبارہ آواز نہ آئی۔ "تیز ہوا کی وجہ سے کوئی سخت چیز دروازے سے ٹکرا گئی ہوگی۔" اس نے دل کو تسلی دی۔ دل اس جواب سے مطمئن تو نہ ہوا پر اس نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔ ٹریسی نے ایک بار پھر ہمت جمع کر کہ اپنا موبائل فون ڈھونڈا۔ آخرکار تکیے کے نیچے سے اسے فون مل ہی گیا۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کی پیڈ کا لاک کھولنے کے لیے کمبی نیشن ملایا جو کہ لگاتار تین بار غلط مل گیا۔ "اوہ کم آن کیا مصیبت ہے ۔ ۔ !!" اس پر مزید بوکھلاہٹ طاری ہوگئی جس کی وجہ سے اس نے دو بار مزید غلط کمبی نیشن ملا دیا۔ موبائل آدھ گھنٹے کے لیے فریز ہوگیا۔ "آرخخ" اس نے دانت پیس کر موبائل پیچھے اچھال دیا۔ اسے اپنے آُپ پر غصہ آنے لگا کہ اس نے ساری بتیاں بجھائی ہی کیوں تھیں اور اتنا خوفناک ماحول بنا کر ڈراؤنی فلم بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ خوف آہستہ آہستہ لاشعور کا دبیز پردہ چاک کیے باہر جھانکنے لگا تھا۔ ابھی وہ اپنے آپ کو کوس ہی رہی تھی کہ سامنے پڑی لکڑی کی شیلف پر سے ہلکی سی گڑگڑاہٹ کی آواز آئی ۔ ۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس سمت میں دیکھا۔ اس کی گڑیا کا رخ کم از کم 30 ڈگری کے زاویے پر تبدیل ہوچکا تھا۔ ایک بار اور ہلکی سی گڑگڑاہٹ کی آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی اسے گڑیا نیچے گرتے ہوئے نظر آئی۔ بیرونی دروازہ ایک بار پھر بجا "دھم دھم ۔ ۔!!" ٹریسی نے ایک زوردار چیخ ماری اور کمرے سے باہر کی طرف بھاگی ۔ ۔ ۔
دروازہ کون بجا رہا تھا؟ گڑیا شیلف پر سے کیسے گری؟ ٹریسی کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ جانیے 'غلطیاں' کی
 دوسری اور آخری قسط میں یہاں۔ 





0 comments:

Facebook Blogger Plugin: Bloggerized by AllBlogTools.com Enhanced by MyBloggerTricks.com

ایک تبصرہ شائع کریں