غلطیاں ۔ ۔
( دوسرا اور آخری حصہ)
نوٹ: کمزور دل کے افراد نہ پڑھیں۔۔۔!!
Read A New Urdu Story Every Week By Faraz Adil
ٹریسی کی اس گڑیا کے ساتھ بچپن کی ڈھیر
ساری یادیں وابستہ تھیں۔ بجپن میں ٹریسی کسی چیز سے نہ ڈرا کرتی تھی۔ اسکول سے
واپسی میں اجنبیوں سے بات چیت میں لگ جاتی اور جو بھی اسے کوئی ٹافی وغیرہ دیتا وہ
جھٹ سے کھا لیا کرتی۔ تھوڑا سا ڈر اور جھجک دل میں ہونا ضروری ہوتا ہے، اسی خیال
کے پیشِ نظر رابرٹ اور جینفر نے یہ گڑیا اسے بطورِ تحفہ دی۔
پھر کچھ دن بعد چپکے
سے اس کا ایک ہاتھ کاٹ کر پھینک دیا اور اس کی ایک آنکھ بھی
نکال دی۔ ٹریسی جب اسکول سے واپس آئی تو اس کا کٹا ہوا ہاتھ اور آنکھ دیکھ کر بیحد
خوفزدہ ہوئی۔ اس نے اپنے ممی پاپا سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اسے جھوٹ
موٹ بتایا کہ گڑیا راہ چلتے ایک اجنبی سے باتیں کرنے لگی تھی جس نے اسے اغوا کر کہ
اس کی یہ حالت کردی۔ اس دن کے بعد سے ٹریسی خود بھی محتاط رہنے لگی اور اپنی گڑیا
کو بھی سنبھال کر رکھا۔ بڑے ہونے کے بعد جب یہ راز افشا ہوا تو ٹریسی خوب ہنسی اور
اپنے ماں باپ کو اتنا کامیاب اور سبق آموز ڈرامہ کھیلنے پر خوب داد بھی دی اور
اپنی زخمی گڑیا کو بچپن کے اس کھیل کی نشانی کے طور پر ہمیشہ کے لیے اپنی شیلف کی
زینت بنا دیا۔
پر اب یہی بچپن کی سہیلی اس کے لیے وبالِ جان بن گئی تھی۔ زوں زوں کی
آوازوں کے ساتھ اس کا ایک دم نیچے گر جانا ٹریسی کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ گھر میں
پھیلا اندھیرا اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا کیے دے رہا تھا۔ اس نے ٹرسٹن کے کمرے
میں پناہ لینے کی سوچی۔ ڈرتے ڈرتے ٹرسٹن کے کمرے کا دروازہ کھولا اور بتیاں جلا
دیں۔ کمرے میں جا بجا ٹرسٹن کے ہائی اسکول کے سائنسی پراجیکٹ بکھرے ہوئے تھے۔ وہ
سائنسدان طبیعت کا مالک تھا اور اوٹ پٹانگ ایجادات کرتا رہتا تھا۔ لکڑی کے فریم
میں لگے مختلف پنڈولم، نیلی ہری و لال بتیوں والے عجیب و غریب چھوٹے چھوٹے روبوٹس
اور پنکھے کی ہوا سے آواز کرنے والی مختلف جھنکاریں۔ عام حالات میں شاید یہ سب
کافی دلچسپ معلوم ہوتا مگر ٹریسی کے دل کی حالت اس وقت اسے ایسی کسی جگہ پر رکنے
کی اجازت نہیں دے رہی تھی جہاں یکلخت چیزیں ہلنے لگیں اور مختلف آوازیں پیدا کرنے
لگیں۔ ٹریسی اپنے ممی پاپا کے روپ میں آگئی۔ یہاں کوئی خلافِ فطرت چیز موجود نہیں
تھی اس لیے وہ کچھ پرسکون سی ہو کر بیٹھی رہی۔ گھڑی دیکھی تو گیارہ بج چکے تھے۔
گھر والوں کے واپس لوٹنے میں صرف ایک گھنٹہ باقی رہ گیا تھا۔ وہ بیڈ پر لیٹ گئی
اور لحاف میں اچھی طرح چھپ کر آنکھیں موند لیں۔
تھوڑٰی ہی دیر گزری تھی کہ اسے کمرے سے ملحقہ باتھ
روم سے ٹپ ٹپ کی آوازیں آںے لگیں۔ "اوہو یہ ڈیڈی نے نلکا ٹھیک نہیں کیا اب تک
۔ ۔ صبح اوزار لے کر کھٹ پٹ تو کر رہے تھے باتھ روم میں" ٹریسی بڑبڑائی اور
کروٹ بدل کر دوبارہ لیٹ گئی مگر مستقل ٹپ ٹپ اسے بیزار کرنے لگ گئی۔ آخر اس نے تنگ
آ کر ایک جھٹکے سے لحاف اتارا اور باتھ روم میں گھس گئی۔
دروازہ کھولا تو زمیں پر پلمبری کے اوزار بکھرے ہوئے تھے۔ ۔ ہتھوڑا ۔
۔ کلہاڑی ۔ ۔ درانتی اور ایک بڑی سی آری۔ سارے وہی اوزار جسے اس نے کچھ دیر پہلے
فلم میں انسانی جسموں پر استعمال ہوتے دیکھا تھا۔ "ڈیڈی اس قسم کے اوزار نلکہ
ٹھیک کرنے کے لیے کیوں لا سکتے ہیں؟" اس نے سہمے ہوئے انداز میں اپنے آُپ سے
سوال کیا۔ اس کی آنکھوں کے آگے فلم والی بدروح گڑیا گھومنے لگ گئی ۔ ۔ اس نے جلدی
جلدی کھلا ہوا نل چیک کرنا چاہا جس سے پانی ٹپک رہا تھا ۔ ۔ مگر سارے نل مضبوطی سے
بند تھے۔ ۔ "تو پھر یہ آواز۔ ۔ " اس نے پریشان ہو کر سوچا۔ وسوسے اس کے
دل میں مکمل طور پر سرائیت کر چکے تھے۔ "ہو نہ ہو کوئی شیطانی چکر چل رہا ہے
گھر میں۔ ۔" اس نے رو دینے والے انداز میں اعتراف کیا کہ اتنے میں بیرونی
دروازے پر ایک بار پھر زوردار دستک ہوئی ۔ ۔"دھم ۔ ۔ دھم ۔ ۔ " ٹریسی
گھبرا کر پلٹی اور باہر جانے لگی کہ اس کا پاؤں پھسل گیا۔ اوندھے منہ وہ اس بے
ہنگم انداز میں گری کے سیدھی کھڑی درانتی اس کے حلق میں اترتی چلی گئی۔
-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x
رابرٹ، جینفر اور ٹرسٹن گاڑی میں بیٹھے گھر واپسی کا سفر طے کر رہے
تھے۔ "واہ کیا زبردست ڈنر کروایا ہے انکل نے۔ افسوس ٹریسی نے مِس کر
دیا۔" ٹرسٹن پرجوش ہو کر بولا۔ "صحٰیح کہا ۔ ۔ پتہ نہیں اس لڑکی کو
اکیلا رہنے کا اتنا شوق کیوں ہے۔" جینفر بولی۔ "لگتا ہے اس کے ساتھ گڑیا
والا ڈرامہ ایک بار پھر کھیلنا پڑے گا۔" رابرٹ نے معنی خیز انداز میں کہا اور
سب ہنسنے لگے۔ "اب وہ بڑی ہوچکی ہے رابرٹ ان سب چیزوں سے ڈرنے والی
نہیں۔" جینفر ہنستے ہوئے بولی۔ ہوا کا تیز جھونکا گاڑی میں داخل ہوا اور سب
کے بال بکھیر گیا۔ "ٹرسٹن شیشہ بند کرو۔۔!!" رابرٹ چلایا۔ "جی پاپا
میں تو بس۔ ۔ آج ہوا کتنی زوردار چل رہی ہے۔ ٹریسی گڑیا سے ڈرے نہ ڈرے میرے
پینڈولم پراجیکٹ سے ضرور ڈر جائے گی۔" ٹرسٹن نے بات گھمائی۔ "پنڈولم
پراجیکٹ؟" دونوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ "جی پنڈولم پراجیکٹ۔ میں نے
ایک نئے تجربے کے طور پر ایک بڑی سی پتنگ کے پیچھے دو درمیانے سائز کے پینڈولم
جوڑے اور انہیں گھر کے بیرونی دروازے کے اوپر دھاگے کی مدد سے باندھ دیا تھا۔ امید
تھی کہ جس بھی رخ سے ہوا کا جھونکا آئے گا پتنگ کا ٹکڑا اس ہوا سے بالکل سیدھ میں
اوپر جائے گا اور ہوا کا زور ختم ہوتے ہی پوری قوت سے واپس اسی ٹریجیکٹری کو فالو
کرتا ہوا دروازے پر لگے گا اور 'دھم دھم' جیسی آوازیں آئینگی۔" اس نے فخر سے
بتایا۔ "اوہ ۔ ۔ مگر ہوا تو آج ہی چلی ہے ورنہ تو پچھلے پورے ہفتے حبس رہا
ہے۔" رابرٹ نے کہا۔ "جی جبھی تو میں نے اسے مستقل لٹکائے رکھا۔ ۔ حیرت
ہے کہ کسی کی بھی نظر نہیں پڑی۔" اس نے شریر انداز میں کہا۔ "ہاں حیرت
ہے اور کمال بھی۔ ۔ مگر تمہیں اسے ہٹا لینا چاہیے تھا۔ کہیں ٹریسی ڈر ہی نہ
جائے۔" جینفر کچھ پریشان ہوتے ہوئے بولی۔ "پریشانی کی کیا بات ہے بھئی۔
۔ وہ کوئی بچی تو نہیں۔" رابرٹ نے اسے تسلی دی۔ "یہ بات نہیں۔ ۔ میں نے
اسے دعوت کے دوران فون کیا تھا مگر اس کے سگنل نہیں ملے۔ میں نے اپنے پرانے سیل
فون پر بھی کوشش کی جو اس کی شیلف پر گڑیا کے پیچھے رکھ کر آئی تھی مگر اس پر بھی
کوئی جواب نہیں ملا۔" جینفر نے مزید پریشان ہوتے ہوئے بتایا۔ "اوہو بھئی
تمہارا وہ پرانا فون تو اب صرف وائبریٹ ہی کرتا ہے نہ اس کی رنگ ٹون بجتی ہے اور
نہ ہی کوئی روشنی نکلتی ہے۔ ٹریسی نے دھیان نہیں دیا ہوگا۔ ویسے اس کی وائبریشن
بڑی جاندار ہے اب تک۔" رابرٹ نے بظاہر ہنتسے ہوئے اسے تسلی دی مگر اب وہ بھی
قدرے پریشان نظر آ رہا تھا۔ "میں اپنے سارے اوزار باتھ روم میں لاپرواہی سے
کھلے چھوڑ آیا ہوں۔ مجھے وہ اٹھا لینے چاہیے تھے۔" رابرٹ نے دھیمے لہجے میں
کہا۔ "بس خدا کرے وہ خیریت ہو ۔ ۔" انہوں نے گاڑی کی اسپیڈ یکدم بڑھا
دی۔ سب کے دلوں میں غٰیر واضح سا خوف منڈلانے لگا اور گاڑی میں مکمل خاموشی چھا
گئی۔ گاڑی کے پہیے کچھ دیر اور گھومے ہی تھے کہ بادلوں نے کڑاکے دار نعرہ بلند کیا
اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ پورٹ آرتھر کا موسم ایسا ہی تھا ۔ ۔ بارش کا کچھ
پتہ نہ لگتا۔ گاڑی اچھی خاصی اسپیڈ میں تھی اس لیے ونڈ اسکرین پر ارد گرد کی بارش
بھی جمع ہو کر ایک چھوٹے سے جھرنے کی طرح بہنے لگی۔ "گاڑی آہستہ کرو رابرٹ
کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔" "ہاں ۔ ۔ میں۔ ۔ وائپر ۔ " رابرٹ نے
ہڑبڑا کر وائپر اسٹارٹ کیے مگر کھچ کھچ کی آواز کے علاوہ اور کچھ نہ ہوا۔ ۔ وائپر
موجود ہی نہیں تھے۔ ۔ ۔ !! جب تک رابرٹ کو صحیح سے کچھ سمجھ آتا اور وہ بریک لگا
پاتے کراسنگ پر دائیں جانب سے آنے والا تیز رفتار ٹرالر ان سب کو کچلتا ہوا چلا گیا۔
x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x
باتھ روم کا فرش اور آس پاس کی دیواریں ٹریسی کے
گلے سے ابل ابل کر نکلنے والے خون سے سرخ ہو چکی تھیں۔ اس نے آری اپنے گلے سے
نکالنے کی آخری بار کوشش کی اور پھر بے سدھ ہو کر لیٹ گئی۔ ۔ اپنی موت کا انتظار
کرنے کے لیے۔ جانے کتنا خون باقی تھا جسم میں جس کے بعد ٹریسی کو اس عذاب سے نجات
ملتی۔ ۔ وہ لیٹے لیٹے بچپن سے لیکر اب تک کی ساری زندگی یاد کرنے لگی۔ ۔ مما ۔ ۔
پاپا ۔ ۔ ۔ ٹرسٹن ۔ ۔ فرینک۔ ۔ اسے سب بیحد یاد آنے لگے۔ ۔ "کاش میں انہیں
ایک آخری بار مل پاتی۔ ۔ الوداع کر پاتی۔ ۔" اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اتنے میں اس نے بادلوں کے گرجنے اور زوردار بارش شروع ہونے کی آواز سنی تو اس کا
لاغر جسم زور سے تڑپا۔ اسے اچانک گذشتہ رات کا واقعہ یاد آگیا جب وہ اور فرینک چھپ
رات کے وقت گیراج میں ملے تھے اور فرینک کی شرارت سے پاپا کی گاڑی کے دونوں وائپر
ٹوٹ گئے تھے۔ ۔ "اوہ ۔ ۔ نہٰیں نہیں مجھے بتا دینا چاہیے تھا ۔ ۔ ڈئیر گاڈ بس
میرے گھر والوں کو کچھ نہ ہو۔ ۔ " اس نے بے بسی سے روتے ہوئے کہا۔ اسے احساس
ہوا کہ اس کے رونے کی آوز میں کسی کی ہنسی بھی شامل ہے ۔ ۔ باریک سی چیختی ہوئی
آواز میں کوئی اس کے دائیں طرف بیٹھا ہلکے ہلکے ہنس رہا تھا ۔ ۔ اس نے گردن گھمانے
کی کوشش کی مگر گردن میں پھنسی درانتی کی وجہ سے گردن موڑ نہ پائی بس 'سی' کر کہ
رہ گئی۔ ڈرتے ڈرتے ٹریسی نے کن انکھیوں سے داہنی طرف دیکھا۔ ۔ اس کے سرہانے اس کی
سہیلی گڑیا بیٹھی تھی ۔ ۔ بغیر آنکھ اور ہاتھ والی گڑیا ۔ ۔ ۔ جو ہنتسے ہوئے اپنا اکلوتا
ہاتھ ٹریسی کی آنکھ کی طرف بڑھا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ !!
x-x-x-x-x-x-x-x-x-xختم شد -x-x-x-x-x-x-x-x-x-x
میرا ماننا ہے کہ حقیقی اور ماورائی عوامل جہاں
بظاہر ایک دوسرے کو کاؤنٹر بیلنس کرنے کے لیے قدرت کے کھیل تماشوں میں مشغول رہتے
ہیں وہیں درحقیقت یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کی آڑ لے کر انسان کو الجھائے رکھنے
میں زیادہ لطف محسوس کرتی ہیں۔ اسی فلسفے کے تحت یہ کہانی لکھی گئی ہے۔ امید ہے آپ
سب کو پسند آئے گی۔ اپنی قیمتی آراء کمنٹس میں ضرور شئیر کیجیے۔
غلطیاں ۔ ۔
( دوسرا اور آخری حصہ)
نوٹ: کمزور دل کے افراد نہ پڑھیں۔۔۔!!
Read A New Urdu Story Every Week By Faraz Adil
ٹریسی کی اس گڑیا کے ساتھ بچپن کی ڈھیر
ساری یادیں وابستہ تھیں۔ بجپن میں ٹریسی کسی چیز سے نہ ڈرا کرتی تھی۔ اسکول سے
واپسی میں اجنبیوں سے بات چیت میں لگ جاتی اور جو بھی اسے کوئی ٹافی وغیرہ دیتا وہ
جھٹ سے کھا لیا کرتی۔ تھوڑا سا ڈر اور جھجک دل میں ہونا ضروری ہوتا ہے، اسی خیال
کے پیشِ نظر رابرٹ اور جینفر نے یہ گڑیا اسے بطورِ تحفہ دی۔
پھر کچھ دن بعد چپکے سے اس کا ایک ہاتھ کاٹ کر پھینک دیا اور اس کی ایک آنکھ بھی
نکال دی۔ ٹریسی جب اسکول سے واپس آئی تو اس کا کٹا ہوا ہاتھ اور آنکھ دیکھ کر بیحد
خوفزدہ ہوئی۔ اس نے اپنے ممی پاپا سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اسے جھوٹ
موٹ بتایا کہ گڑیا راہ چلتے ایک اجنبی سے باتیں کرنے لگی تھی جس نے اسے اغوا کر کہ
اس کی یہ حالت کردی۔ اس دن کے بعد سے ٹریسی خود بھی محتاط رہنے لگی اور اپنی گڑیا
کو بھی سنبھال کر رکھا۔ بڑے ہونے کے بعد جب یہ راز افشا ہوا تو ٹریسی خوب ہنسی اور
اپنے ماں باپ کو اتنا کامیاب اور سبق آموز ڈرامہ کھیلنے پر خوب داد بھی دی اور
اپنی زخمی گڑیا کو بچپن کے اس کھیل کی نشانی کے طور پر ہمیشہ کے لیے اپنی شیلف کی
زینت بنا دیا۔
پھر کچھ دن بعد چپکے سے اس کا ایک ہاتھ کاٹ کر پھینک دیا
پر اب یہی بچپن کی سہیلی اس کے لیے وبالِ جان بن گئی تھی۔ زوں زوں کی
آوازوں کے ساتھ اس کا ایک دم نیچے گر جانا ٹریسی کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ گھر میں
پھیلا اندھیرا اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا کیے دے رہا تھا۔ اس نے ٹرسٹن کے کمرے
میں پناہ لینے کی سوچی۔ ڈرتے ڈرتے ٹرسٹن کے کمرے کا دروازہ کھولا اور بتیاں جلا
دیں۔ کمرے میں جا بجا ٹرسٹن کے ہائی اسکول کے سائنسی پراجیکٹ بکھرے ہوئے تھے۔ وہ
سائنسدان طبیعت کا مالک تھا اور اوٹ پٹانگ ایجادات کرتا رہتا تھا۔ لکڑی کے فریم
میں لگے مختلف پنڈولم، نیلی ہری و لال بتیوں والے عجیب و غریب چھوٹے چھوٹے روبوٹس
اور پنکھے کی ہوا سے آواز کرنے والی مختلف جھنکاریں۔ عام حالات میں شاید یہ سب
کافی دلچسپ معلوم ہوتا مگر ٹریسی کے دل کی حالت اس وقت اسے ایسی کسی جگہ پر رکنے
کی اجازت نہیں دے رہی تھی جہاں یکلخت چیزیں ہلنے لگیں اور مختلف آوازیں پیدا کرنے
لگیں۔ ٹریسی اپنے ممی پاپا کے روپ میں آگئی۔ یہاں کوئی خلافِ فطرت چیز موجود نہیں
تھی اس لیے وہ کچھ پرسکون سی ہو کر بیٹھی رہی۔ گھڑی دیکھی تو گیارہ بج چکے تھے۔
گھر والوں کے واپس لوٹنے میں صرف ایک گھنٹہ باقی رہ گیا تھا۔ وہ بیڈ پر لیٹ گئی
اور لحاف میں اچھی طرح چھپ کر آنکھیں موند لیں۔
تھوڑٰی ہی دیر گزری تھی کہ اسے کمرے سے ملحقہ باتھ روم سے ٹپ ٹپ کی آوازیں آںے لگیں۔ "اوہو یہ ڈیڈی نے نلکا ٹھیک نہیں کیا اب تک ۔ ۔ صبح اوزار لے کر کھٹ پٹ تو کر رہے تھے باتھ روم میں" ٹریسی بڑبڑائی اور کروٹ بدل کر دوبارہ لیٹ گئی مگر مستقل ٹپ ٹپ اسے بیزار کرنے لگ گئی۔ آخر اس نے تنگ آ کر ایک جھٹکے سے لحاف اتارا اور باتھ روم میں گھس گئی۔
دروازہ کھولا تو زمیں پر پلمبری کے اوزار بکھرے ہوئے تھے۔ ۔ ہتھوڑا ۔
۔ کلہاڑی ۔ ۔ درانتی اور ایک بڑی سی آری۔ سارے وہی اوزار جسے اس نے کچھ دیر پہلے
فلم میں انسانی جسموں پر استعمال ہوتے دیکھا تھا۔ "ڈیڈی اس قسم کے اوزار نلکہ
ٹھیک کرنے کے لیے کیوں لا سکتے ہیں؟" اس نے سہمے ہوئے انداز میں اپنے آُپ سے
سوال کیا۔ اس کی آنکھوں کے آگے فلم والی بدروح گڑیا گھومنے لگ گئی ۔ ۔ اس نے جلدی
جلدی کھلا ہوا نل چیک کرنا چاہا جس سے پانی ٹپک رہا تھا ۔ ۔ مگر سارے نل مضبوطی سے
بند تھے۔ ۔ "تو پھر یہ آواز۔ ۔ " اس نے پریشان ہو کر سوچا۔ وسوسے اس کے
دل میں مکمل طور پر سرائیت کر چکے تھے۔ "ہو نہ ہو کوئی شیطانی چکر چل رہا ہے
گھر میں۔ ۔" اس نے رو دینے والے انداز میں اعتراف کیا کہ اتنے میں بیرونی
دروازے پر ایک بار پھر زوردار دستک ہوئی ۔ ۔"دھم ۔ ۔ دھم ۔ ۔ " ٹریسی
گھبرا کر پلٹی اور باہر جانے لگی کہ اس کا پاؤں پھسل گیا۔ اوندھے منہ وہ اس بے
ہنگم انداز میں گری کے سیدھی کھڑی درانتی اس کے حلق میں اترتی چلی گئی۔
-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x
رابرٹ، جینفر اور ٹرسٹن گاڑی میں بیٹھے گھر واپسی کا سفر طے کر رہے
تھے۔ "واہ کیا زبردست ڈنر کروایا ہے انکل نے۔ افسوس ٹریسی نے مِس کر
دیا۔" ٹرسٹن پرجوش ہو کر بولا۔ "صحٰیح کہا ۔ ۔ پتہ نہیں اس لڑکی کو
اکیلا رہنے کا اتنا شوق کیوں ہے۔" جینفر بولی۔ "لگتا ہے اس کے ساتھ گڑیا
والا ڈرامہ ایک بار پھر کھیلنا پڑے گا۔" رابرٹ نے معنی خیز انداز میں کہا اور
سب ہنسنے لگے۔ "اب وہ بڑی ہوچکی ہے رابرٹ ان سب چیزوں سے ڈرنے والی
نہیں۔" جینفر ہنستے ہوئے بولی۔ ہوا کا تیز جھونکا گاڑی میں داخل ہوا اور سب
کے بال بکھیر گیا۔ "ٹرسٹن شیشہ بند کرو۔۔!!" رابرٹ چلایا۔ "جی پاپا
میں تو بس۔ ۔ آج ہوا کتنی زوردار چل رہی ہے۔ ٹریسی گڑیا سے ڈرے نہ ڈرے میرے
پینڈولم پراجیکٹ سے ضرور ڈر جائے گی۔" ٹرسٹن نے بات گھمائی۔ "پنڈولم
پراجیکٹ؟" دونوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ "جی پنڈولم پراجیکٹ۔ میں نے
ایک نئے تجربے کے طور پر ایک بڑی سی پتنگ کے پیچھے دو درمیانے سائز کے پینڈولم
جوڑے اور انہیں گھر کے بیرونی دروازے کے اوپر دھاگے کی مدد سے باندھ دیا تھا۔ امید
تھی کہ جس بھی رخ سے ہوا کا جھونکا آئے گا پتنگ کا ٹکڑا اس ہوا سے بالکل سیدھ میں
اوپر جائے گا اور ہوا کا زور ختم ہوتے ہی پوری قوت سے واپس اسی ٹریجیکٹری کو فالو
کرتا ہوا دروازے پر لگے گا اور 'دھم دھم' جیسی آوازیں آئینگی۔" اس نے فخر سے
بتایا۔ "اوہ ۔ ۔ مگر ہوا تو آج ہی چلی ہے ورنہ تو پچھلے پورے ہفتے حبس رہا
ہے۔" رابرٹ نے کہا۔ "جی جبھی تو میں نے اسے مستقل لٹکائے رکھا۔ ۔ حیرت
ہے کہ کسی کی بھی نظر نہیں پڑی۔" اس نے شریر انداز میں کہا۔ "ہاں حیرت
ہے اور کمال بھی۔ ۔ مگر تمہیں اسے ہٹا لینا چاہیے تھا۔ کہیں ٹریسی ڈر ہی نہ
جائے۔" جینفر کچھ پریشان ہوتے ہوئے بولی۔ "پریشانی کی کیا بات ہے بھئی۔
۔ وہ کوئی بچی تو نہیں۔" رابرٹ نے اسے تسلی دی۔ "یہ بات نہیں۔ ۔ میں نے
اسے دعوت کے دوران فون کیا تھا مگر اس کے سگنل نہیں ملے۔ میں نے اپنے پرانے سیل
فون پر بھی کوشش کی جو اس کی شیلف پر گڑیا کے پیچھے رکھ کر آئی تھی مگر اس پر بھی
کوئی جواب نہیں ملا۔" جینفر نے مزید پریشان ہوتے ہوئے بتایا۔ "اوہو بھئی
تمہارا وہ پرانا فون تو اب صرف وائبریٹ ہی کرتا ہے نہ اس کی رنگ ٹون بجتی ہے اور
نہ ہی کوئی روشنی نکلتی ہے۔ ٹریسی نے دھیان نہیں دیا ہوگا۔ ویسے اس کی وائبریشن
بڑی جاندار ہے اب تک۔" رابرٹ نے بظاہر ہنتسے ہوئے اسے تسلی دی مگر اب وہ بھی
قدرے پریشان نظر آ رہا تھا۔ "میں اپنے سارے اوزار باتھ روم میں لاپرواہی سے
کھلے چھوڑ آیا ہوں۔ مجھے وہ اٹھا لینے چاہیے تھے۔" رابرٹ نے دھیمے لہجے میں
کہا۔ "بس خدا کرے وہ خیریت ہو ۔ ۔" انہوں نے گاڑی کی اسپیڈ یکدم بڑھا
دی۔ سب کے دلوں میں غٰیر واضح سا خوف منڈلانے لگا اور گاڑی میں مکمل خاموشی چھا
گئی۔ گاڑی کے پہیے کچھ دیر اور گھومے ہی تھے کہ بادلوں نے کڑاکے دار نعرہ بلند کیا
اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ پورٹ آرتھر کا موسم ایسا ہی تھا ۔ ۔ بارش کا کچھ
پتہ نہ لگتا۔ گاڑی اچھی خاصی اسپیڈ میں تھی اس لیے ونڈ اسکرین پر ارد گرد کی بارش
بھی جمع ہو کر ایک چھوٹے سے جھرنے کی طرح بہنے لگی۔ "گاڑی آہستہ کرو رابرٹ
کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔" "ہاں ۔ ۔ میں۔ ۔ وائپر ۔ " رابرٹ نے
ہڑبڑا کر وائپر اسٹارٹ کیے مگر کھچ کھچ کی آواز کے علاوہ اور کچھ نہ ہوا۔ ۔ وائپر
موجود ہی نہیں تھے۔ ۔ ۔ !! جب تک رابرٹ کو صحیح سے کچھ سمجھ آتا اور وہ بریک لگا
پاتے کراسنگ پر دائیں جانب سے آنے والا تیز رفتار ٹرالر ان سب کو کچلتا ہوا چلا گیا۔
x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x
باتھ روم کا فرش اور آس پاس کی دیواریں ٹریسی کے گلے سے ابل ابل کر نکلنے والے خون سے سرخ ہو چکی تھیں۔ اس نے آری اپنے گلے سے نکالنے کی آخری بار کوشش کی اور پھر بے سدھ ہو کر لیٹ گئی۔ ۔ اپنی موت کا انتظار کرنے کے لیے۔ جانے کتنا خون باقی تھا جسم میں جس کے بعد ٹریسی کو اس عذاب سے نجات ملتی۔ ۔ وہ لیٹے لیٹے بچپن سے لیکر اب تک کی ساری زندگی یاد کرنے لگی۔ ۔ مما ۔ ۔ پاپا ۔ ۔ ۔ ٹرسٹن ۔ ۔ فرینک۔ ۔ اسے سب بیحد یاد آنے لگے۔ ۔ "کاش میں انہیں ایک آخری بار مل پاتی۔ ۔ الوداع کر پاتی۔ ۔" اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اتنے میں اس نے بادلوں کے گرجنے اور زوردار بارش شروع ہونے کی آواز سنی تو اس کا لاغر جسم زور سے تڑپا۔ اسے اچانک گذشتہ رات کا واقعہ یاد آگیا جب وہ اور فرینک چھپ رات کے وقت گیراج میں ملے تھے اور فرینک کی شرارت سے پاپا کی گاڑی کے دونوں وائپر ٹوٹ گئے تھے۔ ۔ "اوہ ۔ ۔ نہٰیں نہیں مجھے بتا دینا چاہیے تھا ۔ ۔ ڈئیر گاڈ بس میرے گھر والوں کو کچھ نہ ہو۔ ۔ " اس نے بے بسی سے روتے ہوئے کہا۔ اسے احساس ہوا کہ اس کے رونے کی آوز میں کسی کی ہنسی بھی شامل ہے ۔ ۔ باریک سی چیختی ہوئی آواز میں کوئی اس کے دائیں طرف بیٹھا ہلکے ہلکے ہنس رہا تھا ۔ ۔ اس نے گردن گھمانے کی کوشش کی مگر گردن میں پھنسی درانتی کی وجہ سے گردن موڑ نہ پائی بس 'سی' کر کہ رہ گئی۔ ڈرتے ڈرتے ٹریسی نے کن انکھیوں سے داہنی طرف دیکھا۔ ۔ اس کے سرہانے اس کی سہیلی گڑیا بیٹھی تھی ۔ ۔ بغیر آنکھ اور ہاتھ والی گڑیا ۔ ۔ ۔ جو ہنتسے ہوئے اپنا اکلوتا ہاتھ ٹریسی کی آنکھ کی طرف بڑھا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ !!
x-x-x-x-x-x-x-x-x-xختم شد -x-x-x-x-x-x-x-x-x-x
میرا ماننا ہے کہ حقیقی اور ماورائی عوامل جہاں
بظاہر ایک دوسرے کو کاؤنٹر بیلنس کرنے کے لیے قدرت کے کھیل تماشوں میں مشغول رہتے
ہیں وہیں درحقیقت یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کی آڑ لے کر انسان کو الجھائے رکھنے
میں زیادہ لطف محسوس کرتی ہیں۔ اسی فلسفے کے تحت یہ کہانی لکھی گئی ہے۔ امید ہے آپ
سب کو پسند آئے گی۔ اپنی قیمتی آراء کمنٹس میں ضرور شئیر کیجیے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں