میری پرواز تعینات کی طرف واپس پلٹنے لگی اور میں نے خود کو
ایسے گھٹن اور حبس زدہ ماحول میں پایا کہ میرے سامنے ایک شہر عظیم کا کھنڈر تھا تھا جسکے حصار شکستہ اور گھر ویران تھے۔ تباہی اور بربادی اس شہر
کے چپے چپے سے عیاں تھی اور خبر دے رہی تھی کہ کسی بڑے صدمہ اور حادثہ کا ظہور
یہاں ہوا ہے۔ آسمان پر ابر کی وجہ سے روشنی کم تھی جس کی وجہ سے اس کھنڈر کی یاسیت
اور بڑھ رہی تھی۔ آسمان ابر سے ڈھکے ہونے کے باوجود زمین گرمی سے ایسے سلگ رہی تھی
کہ حدت جوتوں سے چڑھ کر پیروں تک آتی محسوس ہوتی۔ میں نے پریشان ہو کر بے اختیار
کمر بند کو ہاتھ لگایا اور بوتل کو وہاں موجود پا کر بیحد تسلی حاصل کی۔
شہر کی شکست خوردہ فصیل تک پہنچا تو
دیکھا کہ صدر دروازہ ٹوٹ کر بند ہو چکا تھا اور اس کا خاطر خواہ حصہ زمین میں اس
مضبوطی سے گڑا ہوا تھا کہ اسے ہلانا تک ناممکن تھا۔ اس برباد دروازے کے دائیں
بائیں دیوار پر انسانی بت کشید کیے ہوئے تھے جن پر نظر پڑی تو خدا کو یاد کیا۔
ان میں ایک انسانی مجسمہ خود اپنی آنکھیں
نکالنے کیلئے ایک چاقو اپنے آنکھ کے حلقے پر رکھا ہوا تھا تو دوسرے چاقو سے اپنا
آدھا کان کاٹے ہوئے تھے اور چاقو بقیہ کان میں دھنسا ہوا تھا۔ دونوں کے سینوں پر
سرطان نما پھوڑے تھے جنہیں دیکھ کر ہی کراہیت اور بے پناہ خوف کا احساس ہوتا تھا۔ میں
نے ان بتوں سے نظریں دور کیں اور اس امید سے شہر کے حصار کے ساتھ ساتھ چلنے لگا کہ
کہیں سے اس کھنڈر کے اندر جانے کی کوئی سبیل پیدا ہو۔
کافی دیر چلنے کے بعد ایک قبلِ اسلام کے کسی
مذھب کی کوئی اجڑی عبادت گاہ جیسی عمارت نظر آئی جس کی چھت کچھ اسطرح گری ہوئی تھی
کہ اس کا ملبہ حصار سے باہر گرا ہوا تھا۔ یہاں سے بآسانی ملبہ پر چڑھ کر شہر کے اندر
داخل ہوا جا سکتا تھا۔ دل مضبوط کر کہ میں شہر کے اندر چلا آیا۔