عزیز دوستو آج کافی دن بعد آپ لوگوں
کی خدمت میں ایک بے ربط سی تحریر کے ساتھ حاظر ہوں۔ بے ربط تحریر اس لیے کہ کھڑے ہو کر لکھ رہا ہوں۔ کھڑے ہو کر کیوں لکھ رہا ہوں
یہ وجہ آپ کچھ ہی دیر میں جان جائینگے۔
حضرات ڈیڑھ مہینہ پہلے میری والدہ حضور کو عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہ نے ان کی بہت بڑی خواہش پوری کی اور انہیں اپنے گھر کا مہمان بنایا۔ سبحان اللہ کسی انسان کے لیے اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہوتی ہوگی کہ زمینوں اور آسمانوں کا بادشاہ مٹی کے بنے معمولی پتلے کو اپنے گھر کی زیارت نصیب فرما دے۔ جب کوئی مسلمان اللہ کا گھر دیکھ لے تو بس پھر وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اب والدہ حضور کو واپس آئے قریباً دو ہفتے ہو چکے ہیں مگر میں نے محسوس کیا ہے کہ بے شک جسمانی طور پر وہ یہاں منتقل ہو چکی ہیں مگر ان کا دل و دماغ اب بھی بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے۔ کہتے ہیں جس دل میں عشقِ حقیقی سما جائے تو اس کی مہک سے آس پاس کے اجڑتے گلستان بھی مہک جاتے ہیں۔ ہم بہن بھائیوں نے بھی اس عشق کے اثرات محسوس کرنے شروع کیے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے صرف خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺ کے ایسے رقت آمیز مناظر سننے کو ملتے ہیں کہ مجھ جیسے گناہ گار کہ دل میں بھی اس خواہش نے جنم لے ہی لیا کہ بس اب جلد یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جائے۔ مشہور نعتیہ کلام ہے کہ "جب کرم ہوتا ہے حالات بدل جاتے ہیں"۔ ۔ مجھے لگتا ہے کہ "جب کرم ہوتا ہے ترجیحات بدل جاتی ہیں"۔ جہاں بائیک پر بیٹھتے ہی میں ایسے راگ چھیٹرتا تھا کہ تان سین اپنی قبر میں بے چین ہو کر پلٹیاں کھانے لگے اب "اے مدینے کے زائر خدا کے لیے داستانِ سفر مجھ کو یوں نہ سنا" پڑھتے ہوئے جا رہا ہوتا ہوں۔ ترجیحات کا درست پٹڑی پر آنا ہی کرمِ خداوندی کی سب سے بڑی نشانی ہے اور یہ سب صحبت کے طفیل نصیب ہوا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنا چاہیے۔ ان کے طفیل انسان کو اکثر ایسے انعامات نصیب ہوتے ہیں جن کے وہ بذاتِ خود کسی طور قابل نہیں ہوتا۔ ان روحانی تحائف کے علاوہ جو تحفہ نصیب ہوا وہ آبِ زم زم ہے جسے والدہ روز صبح اہتمام کے ساتھ پلا رہی ہیں اور جب سے انہیں یہ فکر لاحق ہوئی ہے کہ زم زم ختم ہونے لگا ہے تو "ڈائی لیوشن" کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ آج والدہ چائے بناتے ہوئے نہ جانے خانہ کعبہ کے تصور میں گم تھیں یا روضہ رسول ﷺ کی یاد میں، مگر اس کا نتیجہ بہرحال کچھ یوں نکلا کہ انہوں نے چائے میں بھی 2 بوندیں زم زم کی ٹپکا دی ہیں جس کی وجہ سے پوری چائے قبلہ رو کھڑے ہو کر پینی پڑ رہی ہے۔ اب چائے پی رہا ہوں اور تحریر لکھ رہا ہوں ساتھ ہی سوچ رہا ہوں کہ کتنے لوگوں کو حج و عمرے کی سعادت نصیب ہوئی ہے اور کون ہمارے ساتھ کمنٹس میں اپنے خوبصورت تجربات اور واقعات شیئر کرنا چاہے گا؟ اللہ تعالی جلد ہمیں بھی اپنے گھر کا مہمان !بنائے۔ آمین
کی خدمت میں ایک بے ربط سی تحریر کے ساتھ حاظر ہوں۔ بے ربط تحریر اس لیے کہ کھڑے ہو کر لکھ رہا ہوں۔ کھڑے ہو کر کیوں لکھ رہا ہوں
یہ وجہ آپ کچھ ہی دیر میں جان جائینگے۔
حضرات ڈیڑھ مہینہ پہلے میری والدہ حضور کو عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہ نے ان کی بہت بڑی خواہش پوری کی اور انہیں اپنے گھر کا مہمان بنایا۔ سبحان اللہ کسی انسان کے لیے اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہوتی ہوگی کہ زمینوں اور آسمانوں کا بادشاہ مٹی کے بنے معمولی پتلے کو اپنے گھر کی زیارت نصیب فرما دے۔ جب کوئی مسلمان اللہ کا گھر دیکھ لے تو بس پھر وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اب والدہ حضور کو واپس آئے قریباً دو ہفتے ہو چکے ہیں مگر میں نے محسوس کیا ہے کہ بے شک جسمانی طور پر وہ یہاں منتقل ہو چکی ہیں مگر ان کا دل و دماغ اب بھی بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے۔ کہتے ہیں جس دل میں عشقِ حقیقی سما جائے تو اس کی مہک سے آس پاس کے اجڑتے گلستان بھی مہک جاتے ہیں۔ ہم بہن بھائیوں نے بھی اس عشق کے اثرات محسوس کرنے شروع کیے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے صرف خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺ کے ایسے رقت آمیز مناظر سننے کو ملتے ہیں کہ مجھ جیسے گناہ گار کہ دل میں بھی اس خواہش نے جنم لے ہی لیا کہ بس اب جلد یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جائے۔ مشہور نعتیہ کلام ہے کہ "جب کرم ہوتا ہے حالات بدل جاتے ہیں"۔ ۔ مجھے لگتا ہے کہ "جب کرم ہوتا ہے ترجیحات بدل جاتی ہیں"۔ جہاں بائیک پر بیٹھتے ہی میں ایسے راگ چھیٹرتا تھا کہ تان سین اپنی قبر میں بے چین ہو کر پلٹیاں کھانے لگے اب "اے مدینے کے زائر خدا کے لیے داستانِ سفر مجھ کو یوں نہ سنا" پڑھتے ہوئے جا رہا ہوتا ہوں۔ ترجیحات کا درست پٹڑی پر آنا ہی کرمِ خداوندی کی سب سے بڑی نشانی ہے اور یہ سب صحبت کے طفیل نصیب ہوا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنا چاہیے۔ ان کے طفیل انسان کو اکثر ایسے انعامات نصیب ہوتے ہیں جن کے وہ بذاتِ خود کسی طور قابل نہیں ہوتا۔ ان روحانی تحائف کے علاوہ جو تحفہ نصیب ہوا وہ آبِ زم زم ہے جسے والدہ روز صبح اہتمام کے ساتھ پلا رہی ہیں اور جب سے انہیں یہ فکر لاحق ہوئی ہے کہ زم زم ختم ہونے لگا ہے تو "ڈائی لیوشن" کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ آج والدہ چائے بناتے ہوئے نہ جانے خانہ کعبہ کے تصور میں گم تھیں یا روضہ رسول ﷺ کی یاد میں، مگر اس کا نتیجہ بہرحال کچھ یوں نکلا کہ انہوں نے چائے میں بھی 2 بوندیں زم زم کی ٹپکا دی ہیں جس کی وجہ سے پوری چائے قبلہ رو کھڑے ہو کر پینی پڑ رہی ہے۔ اب چائے پی رہا ہوں اور تحریر لکھ رہا ہوں ساتھ ہی سوچ رہا ہوں کہ کتنے لوگوں کو حج و عمرے کی سعادت نصیب ہوئی ہے اور کون ہمارے ساتھ کمنٹس میں اپنے خوبصورت تجربات اور واقعات شیئر کرنا چاہے گا؟ اللہ تعالی جلد ہمیں بھی اپنے گھر کا مہمان !بنائے۔ آمین
فراز عادل
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں