تعارفِ علیل:
عزیز دوستو اسلام و علیکم،
میں جانتا ہوں کہ آپ تمام
دوست کئی دنوں سے نئی تحریر کا انتظار کر رہے ہیں مگر آپ کی اس ننھی سے خواہش کو
پورا کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ دوستو اس ناکامی کا ذمہ دار مجھے ٹھہرانا سراسر
زیادتی ہوگی، اس میں آدھا قصور طویل علالت اور آدھا میرے ڈاکٹر کی ذلالت کا ہے۔ 2
ہفتے پہلے کی بات ہے کہ
مجھے بیٹھے بیٹھے یکلخت ایسا محسوس
ہونے لگا جیسے کسی نے میرے اندر ہیٹر چلا کر مجھے سرد خانے میں ڈال دیا ہو۔ سر بھی
جھولے لعل سا ہونے لگا۔ ڈر کہ مارے فوراً ڈاکٹر کے ہاں دوڑ لگائی تو ڈاکٹر صاحب نے
دیکھتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا۔ آرام دہ اسٹول پر بٹھایا اور دھڑا دھڑ دوائیاں لکھنے
میں مشغول ہو گئے۔ میں حیران رہ گیا "اجی ڈاکٹر صاحب کیا بیماری نہیں
پوچھینگے؟" ڈاکٹر صاحب مسکرا کر بولے "بھئی اگر بیماری آپ سے پوچھنی پڑے
تو پھر تف ہے ایسی ڈاکٹری کی ڈگری پر جو اندرونِ سندھ کے مشہور 'لاء' کالج سے میں
نے اڑھائی سال میں حاصل کی ہے۔" کیا غضب کا اعتماد تھا ان کے انداز میں۔ آدھی
بیماری تو وہیں کافور ہوگئی مگر سوال جواب کرنے کی وہی پرانی بد تمیز سی عادت۔ ۔
"تو کیا نبص بھی نہ دیکھینگے؟" ڈاکٹر صاحب نے اس بار تھوڑے اکتائے ہوئے
انداز میں دیکھا اور بولے "بچے آپ کی بیماری کی تشخیص تو میں نے آپ کا چہرہ
دیکھتے ہی کر لی تھی۔" "اچھا؟ کمال ہے۔ ۔ ۔" میں دم بخود سا ہو کہ
بیٹھا رہا حتیٰ کے انہوں نے 3 صفحے بھر کر دوائیاں نہ لکھ دیں اور "آل دی
بیسٹ" کہ کر روانہ کر دیا۔ یہ دوائیاں ایک ہفتے تک استعمال کرنے کے بعد بھی
جب مرض گھٹنے کے بجائے بڑھتا چلا گیا تو تنگ آ کر دوبارہ ڈاکٹر کے پاس تشریف لے
گیا اور جاتے ہی شکایت آمیز انداز میں بولا "ڈاکٹر صاحب ایک ہفتہ ہوا دوائیاں
کھاتے مگر نہ بخار میں فرق ہے نہ تو سر میں آرام" ڈاکٹر صاحب چند لمحے تو
حیرت سے تکتے رہے پھر بولے۔ ۔ ۔ "اچھ اچھا تو آپ بخار کے علاج واسطے تشریف
لائے تھے؟ ہم تو صورت شریف دیکھ کر نسیان سمجھے تھے۔" یقین کیجیے اس وقت یہ
تمنا اس شدت سے میرے دل میں جاگی کہ کاش واقعی ذہنی توازن میں کوئی مسلہ ہوتا تو
اس خبیث کو قتل کر کہ با عزت بری بھی ہو جاتا۔ خیر پھر مجھے ہسپتال میں بھرتی کر
لیا گیا اور ڈاکٹر اس کے بعد سے ہر روز ایک نئی بیماری کا انکشاف کر رہے ہیں۔ آخری
انکشاف جو انہوں نے انتہائی عاجز آ کر کیا ہے وہ یہ کہ "میاں میں بولوں ہوں
تمہیں نظر لگ گئی ہے۔"
خیر یہ تو کچھ احوال
ٹھہرا میری بیماری کا اب آتے ہیں تعارف کی طرف۔ چونکہ طبیعت کسی نئی تحریر کے بارے
میں سوچنے کی اجازت نہیں دے رہی اور ہم کلام ہونا بھی ضروری ہے تو موقع سے فائدہ
اٹھاتے ہوئے چند محبت شعار پنکھوں کی دیرینہ خواہش پوری کیے دیتے ہیں یعنی تعارف
اور تصویرِ مصنف۔ تو عزیزو جس جوانِ رعنا کو آپ تصویر میں دیکھ سکتے
ہیں اسی نا چیز کا نام فراز عادل ہے اور یہی آپ کے چہیتا من گزیدہ رائٹر ہیں۔
موصوف سن 1991، 31 اگست کی ایک ٹھنڈی شام کو شہرِ کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی
پڑھائی کسی کے اچھے بھی نہ کروا سکے مگر اس کے باوجود ٹیچرز کی 'اپنی جان چھڑاؤ
نکمے نوں آگے بڑھاؤ' پالیسی کے تحت ہر سال باقاعدگی سے پاس ہوتے ہوتے بالاخر جامعہ
کراچی کے شعبہ ہائے فارمیسی میں جا پہنچے۔ پچھلے ہی سال فارمیسی سے ڈاکٹریٹ مکمل
کر کہ 'دھکا یافتہ' ہوئے اور نوکری نہ لگنے کے باعث رائٹر بن کر آج کل آپ لوگوں کے
کان کھا رہے ہیں۔ انگریزوں کے لیے چھوٹی چھوٹی 'فکشن کہانیاں' گھوسٹ رائٹ کر کہ
گزارا کرتے ہیں جبکہ امید ہے کہ جلد ایک مکمل جادوئی فکشن اسٹوری بک اپنے نام سے
بھی پبلش کرنے والے ہیں جو کہ انشاء اللہ امریکہ اور اس کے گرد و نواح میں لانچ
ہوگی جبکہ اس کا اردو ترجمہ کر کہ پاکستان میں پبلش کروایا جانا بھی متوقع ہے
بشرطیکہ آپ لوگوں کا ساتھ اور پسندیدگی اسی طرح برقرار رہے۔ فی الحال اتنا ہی کیوں
کہ ہمت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کم بخت نظریں تو پہلے ہی چاروں اطراف گردش کرتی رہتی
تھیں آج کل دماغ بھی ایک جگہ ٹھہرنے سے قاصر ہے۔ جو لوگ تیمارداری کے لیے آنا
چاہتے ہیں وہ یہ اچھے سے جان لیں کہ گلدستوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں کیونکہ گلاب
کی مانند ایک نرس وارڈ میں پہلے سے موجود ہیں، پھل منع ہیں، جوس بند ہیں اور بسکٹ
بہت سارے پہلے سے رکھے ہیں، نقدی البتہ قابلِ قبول ہے۔ آپ سب کو جمعہ مبارک ہو،
دعاؤں کی درخواست ہے۔
واسلام
؎فراز عادل
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں