میری بیٹی۔ ۔ ۔
پکی عمر کے آفاق صاحب پچھلے کئی دنوں سے سخت پریشان سے ںظر
آ رہے تھے ۔ ۔ میں نے ایک دن انہیں آفیس میں چھٹی کے بعد پکڑ لیا ۔ ۔ پریشانی کی وجہ پوچھی ۔ ۔ پہلے تو ٹالتے رہے آخر
ضبط نہ کر سکے ۔ ۔ کہنے لگے "میری بیٹی
مجھ سے ناراض ہے" ۔ ۔ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ "اس کا کہنا
کے بچپن سے لیکر شادی کے معاملے تک میں نے اس کی کوئی بات نہیں مانی ۔ ۔ اس لیے اب
وہ اپنی ماں اور بہن بھائیوں سے تو ملتی ہے مگر میری شکل دیکھنا بھی نہیں پسند کرتی"
ان کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔ میں لرز کر رہ گیا۔ گھر جا کر سیدھا اپنی دو سال
کی معصوم سی گڑیا کے پاس گیا۔ ۔ وہ اپنے کھلونے سے کھیل رہی تھی۔ ۔ میں نے اس سے کھیلنے
کی کوشش کی مگر وہ مجھے نظر انداز کرنے لگی ۔ ۔
میں
ڈر گیا کہ کہیں مجھ سے ناراض تو نہیں ہوگئی؟؟ میں فوراً دکان پر گیا اور اس کے لئے
ڈھیر سارے مزید کھلونے لے آیا ۔ ۔ کافی دیر کی کوشش کے بعد وہ بالآخر مجھ سے کھیلنے
لگی تو مجھے سکون آیا ۔ ۔ دیکھتے ہی دیکھتے
میری بیٹی بڑی ہوگئی ۔ ۔ میں نے ہر قدم پر اس کا کہنا حرفِ آخر سمجھ کر مانتا رہا
۔ ۔ وہ جس چیز پر ہاتھ رکھتی میں اسے دلا دیتا چاہے اس کیلئے مجھے کسی سے ادھار ہی
کیوں نہ لینا پڑے ۔ ۔ وہ ہزاروں روپے کے ڈریس پر ہاتھ رکھتی تو میں اپنی شاپنگ چھوڑ
کر اس کی پسند کے کپڑے اسے دلا دیتا ۔ ۔ ایک دن اس نے مجھ سے شکایت کی کہ میں دیر سے
گھر آتا ہوں اسے شام کو باہر نہیں لے کر جاتا ۔ ۔ میں نے اس دن کے بعد سے اوور ٹائم
لگانا بالکل ختم کر دیا اور خرچہ پورے کرنے کیلئے اپنی دوائیں اور دیگر ضروریات کو
ںظر انداز کر دیا ۔ ۔کہ کہیں وہ مجھ سے ناراض
نہ ہوجائے۔ ۔ جب وہ کالج جانے لگی تو اس نے
مجھ سے گاڑی سیکھنے کی فرمائش کی ۔ ۔ میں نے جھٹ پٹ پوری کر دی ۔ ۔ پھر ایک دن اس نے
کہا کہ آج وہ وین کے بجائے میری گاڑی میں کالج جانا چاہتی ہے ۔ ۔ میں نے فوراً گاڑی
حاضر کر دی اور خود بس اور چنگچی کے سہارے دفتر پہنچا۔ ۔ اسے گاڑی میں جا کر خوب مزہ آیا تو اس نے اگلے دن
بھی یہی مطالبہ کیا۔ ۔ پھر گاڑی اس کی ہوگئی
اور میں نے بسوں میں سفر کرنے کی عادت ڈالنی شروع کر دی کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے۔
۔ پھر ایک دن ایک اوباش سا لڑکا میرے گھر کے
دروازے کے باہر آن کھڑا ہوا ۔ ۔ میری بیٹی نے بتایا کہ وہ اسے پسند کرتی ہے اور شادی
کرنا چاہتی ہے ۔ ۔ مجھے وہ لڑکا چہرے مہرے سے ہی اعتبار کے قابل نہ لگا۔ ۔ یہ میری بیٹی کی زندگی کا معاملہ تھا اس لیے میں
نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی ۔ ۔ وہ نہ مانی ۔ ۔ اس نے کہا کہ اگر مجھے وہ لڑکا نہیں
پسند تو وہ شادی کے بعد مجھ سے نہیں ملا کرے گی مگر شادی اسی سے کرے گی ۔ ۔ مجھے لگا
کئی سالوں پہلے جو بیچارے آفاق صاحب
کے ساتھ ہوا تھا میرے ساتھ بھی وہی ہونے والا ہے ۔ ۔ میں ایک بار پھر لرز کر رہ گیا ۔ ۔ چاہتے نہ
چاہتے میں نے اس کی شادی کر دی۔ ۔ کچھ ہفتوں تک اس نے ہم سے کوئی رابطہ نہ کیا اور
میں دن رات بے چینی سے گزارتا رہا ۔ ۔ اس نے منع کیا تھا کہ جب تک وہ ہم سے خود
رابطہ نہ کرے ہم بھی اس سے ملنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس کا شوہر یہی چاہتا ہے ۔
۔ میں نے اس کی بات پر عمل کیا تاکہ وہ مجھ سے ناراض نہ ہوجائے ۔ ۔ پھر ایک دن وہ
اچانک گھر کے دروازے پر کھڑی تھی ۔ ۔ اس کا آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور ہاتھوں پر نیل
کے نشان تھے ۔ ۔ میرا دل کٹ کر رہ گیا ۔ ۔
میں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگانا چاہا مگر وہ مجھے نظر انداز کر کہ سیدھا
اپنی ماں کے گلے لگ کر رونے لگی ۔ ۔ میں نے اس سے بہت کچھ پوچھا مگر اس نے کوئی
جواب نہ دیا ۔ ۔ آخر مجھے انتہائی غصے سے
کہنے لگی ۔ ۔ "آپ مجھے روک نہیں سکتے تھے؟ کیا فائدہ ایسے باپ کا جسے اولاد
کی بہتری کے فیصلے ہی نہ لینے آتے ہوں۔" یہ کہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
۔ میں بھی بوجھل قدموں سے اپنے کمرے میں آ
گیا ۔ ۔ آئینے میں کھڑے ہو کر دیکھا تو میرے سامنے بوڑے آفاق صاحب کھڑے تھے ۔
۔ ہم دونوں کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے
تھے ۔ ۔ ہمارے کانتپے ہوئے ہونٹ ایک ساتھ ہلے ۔ ۔ "میری بیٹی مجھ سے ناراض ہو
گئی ہے۔ ۔ ۔ "
؎ فراز عادل
؎ فراز عادل
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں