یومِ صدیقِ اکبر اسپیشل:
صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کون؟
22
جمادی الثانی یار غار رسالت، پاسدار خلافت، تاجدار امامت، افضل بشر بعد الانبیاء
حضرت ابوبکر صدیق کی وفات کا دن ہے۔ آئیے اس موقعے پر آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں
مزید جانتے ہیں۔
آپ کا اصل نام عبد اکعبہ
تھا جسے حضورِ اقدس ﷺ نے تبدیل کر کہ
عبداللہ رکھا۔ آپ کی کنیت
ابو بکر تھی اور آپ کا تعلق قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب
ساتویں پشت میں حضور پاک ﷺ سے جا کر ملتا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کا قد
درمیانہ تھا جبکہ آپ جسمانی طور پر بیحد دبلے پتلے سے تھے۔ رنگت کے اعتبار سے آپ
بالکل سفید گورے تھے اور غصے کے کافی تیز تھے مگر غصے پر فوراً قابو پا لیا کرتے
اور اپنی رویے کی مافی مانگ لیا کرتے تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ کی حضور
پاک ﷺ سے محبت نبوت سے پہلے کی تھی۔ جب آپ ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا اور دین کی
دعوت دی تو آپ رضی اللہ عنہ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ نے زمانہ
جاہلیت میں بھی نہ کبھی بت پرستی کی اور نہ ہی شراب نوشی۔
جب آپ رضی اللہ عنہ کے
والد آپ کو بچپن میں بت خانے میں لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے بت سے کہا کہ ”میں
بھوکا ہوں، مجھے کھانا دیں“ اس نے کچھ نہ بولا۔ فرمایا ”میں ننگا ہوں، مجھے کپڑے
پہنا دیں“ وہ کچھ نہ بولا۔ پھر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر
فرمایا ”میں تجھ پر پتھر مارتا ہوں اگر تم خدا ہو تو اپنے آپ کو بچانا“ آخر آپ رضی
اللہ عنہ نے اس کو پتھر مارا تو وہ (بت) منہ کے بل گر پڑا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے
والد نے یہ ماجرا دیکھ کر کہا ”اے میرے بچے! تم نے یہ کیا کیا؟“ فرمایا ”وہی کیا
جو آپ دیکھ رہے ہیں۔“
حضور پاک ﷺ نے فرمایا
(مفہوم) "میں نے جس شخص پر اسلام پیش کیا اس نے پس وپیش سے کام لیا مگر ایک
واحد ابوبکر تھے جنہوں نے میری ایک آواز پر لبیک کہا اور اسلام قبول کیا."
یعنی حضور پاک نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے پہلے کچھ سوالات کیے تحقیقات
کیں مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی حیل و حجت کے اسلام قبول کیا۔
اس کی وجہ ان کی آپ ﷺ سے بیحد محبت، آپ پر بھرپور اعتماد تھا۔ آپ کو پہلی بار صدیق
کا خطاب سب سے پہلے اسلام قبول کرنے پر ملا۔ دوسری بار صدیق کا خطاب آپ کو واقعہ
معراج کی تصدیق کرنے پر ملا اور تب سے آپ کو صدیقِ اکبر کہا جانے لگا۔ آپ کا ایک
خطاب 'عتیق' بھی ہے۔
۔
تاریخِ اسلام آپ رضہ اللہ
عنہ کی دین کے لیے دی گئی قربانیوں اور آپ کی دین پر استقامت کے حیرت انگیز واقعات
سے بھری ہوئی ہے۔ آپ نے روزِ اول سے اپنا ایمان لوگوں پر ظاہر رکھا اور کبھی اسے
چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : "میں نے قریش
کو دیکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا ہوا ہے ، کوئی آپ کو
مار رہاہے ،کوئی برا بھلا کہہ رہا ہے، کوئی دھکے دے رہا ہے اور کہہ رہے ہیں : تو
نے اتنے معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک معبود چن لیا ہے ؟ پس بخدا !ہم میں سے کوئی
بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہیں آیا سوائے ابوبکررضی اللہ عنہ کے ، وہ آئے
اور کسی کو ماررہے ہیں ، کسی سے لڑ رہے ہیں اور کسی کو دھکادے رہے ہیں ، اور کہہ
رہے ہیں : تم ہلاک ہوجاؤ، تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا
رب اللہ ہے ؟"
حضور ﷺ کو جب ہجرت کا حکم
ملا تو آپ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا مجھے بھی آپ کے ساتھ چلنے کی اجازت
ملی ہے؟ حضور ﷺ نے مثبت جواب دیا تو آپ خوشی کے مارے اس قدر روئے کہ اماں عائشہ
رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے اس سے قبل کسی کو خوشی کے باعث اس طرح روتے نہیں
دیکھا۔ اگرچہ اس سفر میں آپ کو قتل کردیے جانے کا خطرہ تھا اس کے باوجود آپ اپنے
محبوب کی رفاقت ملنے پر روئے۔ دورانِ سفر آپ رضی اللہ عنہ اپنا گھوڑا کبھی رسولِ
عربی ﷺ کے دائیں طرف دوڑاتے، کبھی بائیں طرف، کبھی آگے چلنے لگتے تو کبھی پیچھے۔
حضور ﷺ نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے عرض کی کہ جس طرف سے مجھے آپ پر حملے کا خدشہ
ہوتا ہے میں اس طرف چلنے لگتا ہوں۔ سبحان اللہ! اس کے بعد آپ نے وہ رات حضورِ اقدس
کے ساتھ غار میں گزاری جس کی حسرت فرشتے بھی کرتے ہونگے۔
کہا جاتا ہے کہ اسلام میں
پہلی قسمت ہمیشہ آپ رضی اللہ عنہ کی ہی رہی، آپ پر کوئی سبقت نہ لے جا سکا۔ سب سے
پہلے اسلام قبول کیا، سب سے پہلے مسلمان غلاموں کو خرید کر آزاد کروایا، سب سے
پہلے نبی کی حفاظت کا شرف حاصل کیا، حضور ﷺ کے ساتھ ہجرت کی، نبی کی زندگی میں
امامت کی، سب سے پہلے اسلام کے امیرِ حج بنے اور مسلمانوں کے سب سے پہلے خلیفہ
بنے۔
حضور ﷺ کے وصال کے بعد
صدیقِ اکبر رضہ اللہ عنہ نے انصار کے سامنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب
کرنے کی تجویز رکھی جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے کہ
"میں اس معاملے میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ ابو بکر کی موجودگی میں خلیفہ
بننے کے بجائے میں یہ پسند کرونگا کہ میری گردن مار دی جائے۔" (مفہوم)۔ یعنی
حضرت عمر فاروق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں خلافت قبول کرنا شدید
غیر مناسب سمجھتے تھے۔ حضور پاک ﷺ کے ارشادِ پاک کا بھی مفہوم ہے کہ " کسی
قوم کے لئے بہتر نہیں کہ ان میں ابوبکر ہوں اور ان کی امامت کوئی دوسرا کرے."
آپ کا دورِ خلافت
انتہائی مختصر رہا مگر آپ نے اس مختصر دور میں اسلام کی بے پناہ خدمت کی۔ کہا جاتا
ہے اپنے اپنے دور میں تمام خلفائے راشدین نے بہترین فیصلے لیے اور اسلام کے لیے
فتوحات حاصل کیں لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اگر خلافت کسی اور کے ہاتھ
میں ہوتی تو غالب امکان ہے کہ اتنے جری فیصلے نہ کر پاتے۔ جیش اسامہ لشکر کی تشکیل
رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے عہد مبارکہ میں ہی کردی تھی تاہم آپ
کے وصال کے بعد ریاست الاسلامی کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات کے پیش نظر صحابہ
کرام کی اکثریت اس لشکر کی فوری روانگی کے حق میں نہیں تھی .اس موقع پر آپ نے موقف
اختیار کیا کہ اس لشکر کی تشکیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بذات خود
فرمائی ہے اس لئے اس کی روانگی میں کسی قسم کی تاخیر مناسب نہیں. اس لشکر نے
زبردست کامیابیاں حاصل کیں اور فتوحات شام کا دروازہ کھول دیا. خلیفہ منتخب ہونے
کے بعد سب سے پہلے جس فتنہ نے سر اٹھایا وہ منکرین زکوۃ کا تھا. آپ نے فیصلہ کیاا
کہ ان منکرین کے خلاف جہاد کیا جائےگا کیونکہ یہ غریبوں کو ان کا حق نہیں دیتے.آپ
نے اعلان کیا کہ تمام انسانوں کی ضروریات یکساں ہیں اس لئے سب کو یکساں معاوضہ دیا
جائے اور ان کی ضروریات بیت المال سے پوری کی جائیں. آپ نے مملکت اسلامیہ کے دونوں
جانب موجود اس وقت کی بڑی طاقتوں کو للکارا ۔ ایک جانب شام پر تسخیر کی خاطر پہلے
حضرت اسامہ بن زید کے لشکر کو شام روانہ کیا جس نے قیصر روم کی افواج کو شکست فاش
دے کر شام کی فتوحات کا آغاز کیا.بعد ازاں حضرت ابوعبیدہ ا بن الجراح اور یزید بن
ابوسفیان کی قیادت میں لشکر کشی جاری رہی یہاں تک کہ یہ جنگی لحاظ سے اہم ترین
صوبہ قیصرروم کے اقتدار سے نکل کر اسلامی خلافت کا حصہ بن گیا جبکہ دوسری جانب
حضرت خالد بن ولید اور حضرت مثنی بن حارثہ جیسے مایہ ناز جرنیلوں کے زیر قیادت
فوجیں روانہ کرکے شاہ کسری کے اقتدار پر زبردست ضرب لگائي ۔ تدوینِ قرآن کا سہرا
بھی آپ ہی کے سر جاتا ہے۔
خلیفہ منتخب ہونے کے لگ
بھگ 2 سال اور تین ماہ بعد آپ ایک روز ٹھنڈے پانی سے نہا لینے کے باعث بیمار ہوئے۔
تقریباً 15 روز علیل رہے اور ایک دن اماں عائشہ رضی اللہ سے دریافت کیا کہ آج کیا
دن ہے؟ آپ نے جواب دیا "پیر" اس پر آپ نے کہا کہ میرے حبیب کا وصال بھی
پیر کے روز ہی ہوا تھا شاید آج میرا بھی آخری دن ہو اور وہ آپ کا آخری دن ہی ثابت
ہوا۔ آپ نے عمر بھی اپنے حبیب جتنی یعنی 63 برس کی پائی یعنی زندگی میں بھی تقلید
کی اور مرنے میں بھی۔ آپ کو حضور پاک ﷺ کے ساتھ دفن کیا گیا اور احترام کی وجہ سے
آپ کا سر حضور پاک ﷺ کے کندھے مبارک کی سطح پر رکھا گیا۔
حضرت ابوبکر رضہ اللہ عنہ
کے بارے میں نبی مہربان ﷺ کے کچھ ارشاداتِ مبارکہ:
٭میں اگر اللہ کے سوا کسی
کو اپنا دوست و خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا.
٭تم (ابوبکرصدیق) غار میں
بھی میرے ساتھ رہے اور بروز قیامت حوض کوثر پر بھی میرے ہمراہ ہوگے
٭سرکار دوعالم صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم نے ایک روز ارشاد فرمایا ا " ہم نے ہر شخص کے احسان کا بدلہ
چکادیا مگر ابوبکر کے احسانات ایسے ہیں کہ ان کا بدلہ اللہ جل شانہ ہی عطا فرمائے
گا".
٭اے ابو بکر سن لو میری
اُمت میں سب سے پہلے تم جنت میں داخل ہوگے۔
٭قیامت کے دن تین کُرسیاں
خالص سونے کی بنا کر رکھی جائیں گی اور ان کی شعاعوں سے لوگوں کی نگاہیں چندھیا
جائیں گی۔ ایک کرسی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام جلوہ فرما ہوں گے دوسری میں
بیٹھوں گا اور ایک خالی رہے گی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لایا جائے گا
اور اس پر بٹھائیں گے۔ ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا کہ “آج صدیق اللہ کے
حبیب اور خلیل کے ساتھ بیٹھا ہے۔“
سبحان اللہ یہ ہے شان
ہمارے پیارے صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی۔ ۔!! زیادہ سے زیادہ شیئر کیجیے تاکہ امت
اپنے خلیفہ اول کے بارے میں مزید جان سکے۔ جزاک اللہ۔
؎
فراز عادل
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں