جمعرات، 25 جون، 2015

حکایاتِ عادل: گدھے اور گھوڑے

Faraz Adils' story on horses and donkeysحکایاتِ عادل: گدھے اور گھوڑے




کہتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے جب زمین بھی دور سے نظر آنے والے چاند کی طرح خوبصورت ہوا کرتی تھی اور لوگوں کے دلوں میں اخلاص اور سچائی تاروں کی طرح چمکتی تھی ۔ ۔ بحر ِمنجمد سے متصل سرخ پہاڑوں کے عقب میں ایک ریاست "عدل نگر" ہوا کرتی تھی۔۔ ریاست کی خوبی یہ تھی کہ چھوٹی سی  ہونے کے باجود بیحد خوشحال تھی۔ ۔   سب لوگ ہنسی خوشی رہتے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ۔ ۔ ہمسائیوں کا خیال رکھتے۔ ۔  کوئی بھی شخص


دوسرے کیلئے انجان نہیں تھا۔۔ جان خواہ انسان کی ہو یا جانور کی سب سے قیمتی شے اسی کو گردانا جاتا۔ ۔ بادشاہِ وقت بھی انصاف پسندی  اور رحم دلی میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا ۔ ۔



مگر اس ریاست کی ایک اور  خاص بات  بھی تھی ۔ ۔   یہاں دو قسم کے جانوروں کی بہتات تھی۔ ۔  گدھے اور گھوڑے۔ ۔!!



بادشاہ کا حکم تھا کہ دونوں کا یکساں خیال رکھا جائے، سو رعایا دونوں ہی سے خوب ہمدردی کے ساتھ پیش آتی ۔ ۔گدھوں یا گھوڑوں میں سے کوئی بھی  ٹہلتے ہوئے کسی کے در پر سر مارے تو گھر والے فوراً ان کیلئے مختص برتنوں میں چارہ پانی پیش کرتے ۔ ۔ پیٹھ سہلاتے ۔ ۔   کوئی زخم ہو تو اس پر مرحم رکھتے  ۔ ۔ الغرض خوب انعام و اکرام کے ساتھ انہیں واپس کرتے۔۔


دونوں جانور اسی طرح ناز و نیاز کے مزے لوٹتے سکون کی زندگی گزار رہے تھے ۔  ۔ ایک دن ایک نوجوان گھوڑا اپنے قبیلے کو اکھٹا پا کر بولا "یہ گدھے ہم سی ہی محبتیں بٹورتے ہیں مگر ان کے دل سیاہ ہیں اور نسب مکروہ۔ ۔ تو پھر کیوں نہ بادشاہ حضور کے آگے حقیقت کا بھانڈہ پھوڑا جائے اور انہیں ان آسائشوں سے محروم کیا جائے جن کے یہ مستحق نہیں!"
سفید ریشمی بال ہلاتے بزرگ گھوڑا سامنے آیا  "قدرت کا میزان لگے گا تو ہی کھرےکھوٹے میں فرق واضح ہوگا ۔ ۔ تو ہلکان نہ ہو ۔ ۔  جوان ہے ۔ ۔ جا کہ  زندگی کے رنگوں سے دل بہلا"
"مگر کیسے؟" جوانی کی پریشانی بھلا  جواب حاصل کیے بغیر کہاں غارت ہوتی
بزرگ گھوڑا پر رعب قدم اٹھاتے۔۔نعلوں سے آواز پیدا کرتے ایک گدلے پانی کے گھڑولے کی طرف بڑھا اور سفید ڈلی اس میں پھیرتے ہوئے نوجوان کی طرف التفات کیا "آزمائش اس پھٹکری کی مانند ہے ۔ ۔ جب  زندگی میں متعارف ہوتی ہے تو سیاہ قلب والے ڈوب جاتے ہیں اور روشن قالب ممتاز ہو کر سطح پہ آجاتے ہیں۔"
نوجوان گھوڑے نے معائنہ کیا تو بالکل ویسا ہی پایا ۔ ۔ گھڑولے میں کالک بیٹھ چکی تھی اور شفاف پانی اوپر تھا ۔ ۔ مطمئن ہو کر سر ہلایا اور چل دیا۔

چند دن اور سکون کے گزرے کہ اچانک ایک روز پڑوس میں بسنے والی جنگجو قوم نے عدل نگر پر حملہ کر دیا۔ سپاہی  ہتھیاروں سے لیس سرحدوں کی حفاظت کیلئے روانہ ہونے کو تیار ہوئے ۔ ۔ مگر وقت پیدل جانے کی اجازت نہ دیتا
تھا ۔ ۔جلدی پہنچنا مقصود تھا سو سواریوں کیلئے اعلان کیا گیا ۔ ۔ گھوڑوں نے سنا تو سرپٹ دوڑتے آئے اور خود کو حاضر کیا ۔ ۔ بادشاہ اور رعایا دیکھ  کر حیران رہ گئے کہ گدھوں میں سے ایک بھی مدد کو نہ پہنچا۔ ایک کو یونہی آوارہ گردی کرتے دیکھا تو پکڑ کر سخت ملامت کی اور بیوفائی پر استفسار کیا ۔ ۔ آنکھوں میں آنسو بھر کر کہنے لگا "حضور ہم سے مشقت چاہے دن بھر کروا لیجیے گا ۔ ۔ پسینے کا آخری قطرہ بھی بہا دینگے مگر خون کا پہلا قطرہ بھی دینا ہماری فطرت کے خلاف ہے۔۔"

جنگ شروع ہوئی تو کئی دنوں تک جاری رہی ۔ ۔ جیالے سپاہیوں کے ساتھ صف شکن  گھوڑوں نے بھی آنگن کو بچانے واسطے جان واری ۔ ۔ آخر دونوں ہی سرخرو ہو کر واپس لوٹے  ۔ ۔  گھوڑے جس گھر سے گزرتے لوگ جڑاؤ چادریں پیٹھوں پر رکھتے ۔ ۔ سونے کے نعل پہناتے اور کھانے کو گھر کی بہترین چیز آگے کرتے ۔ ۔ دوسری طرف گدھوں کو پتھر مار کر خود سے دور کرتے ۔ ۔لعن طعن کرتے اور ریاست سے نکل جانے کو کہتے ۔ ۔ کرتے کرتے گدھوں کو ریاست سے باہر جنگل میں سکونت اختیار کرنی پڑ ی اور گھوڑے شاہی اصطبل کے مکین ٹھہرے۔

حاصلِ کلام:
دوستو اسی طرح  زندگی میں آزمائشیں دے کر خدا تعالی گدھے گھوڑوں میں فرق کرتا ہے۔ ۔  کبھی دے کر آزماتا ہے کبھی لے کر ۔۔ ۔ کبھی آسمان پر لیجا کر آزماتا ہے کہ بندہ زمین پر نگاہ کرتا ہے یا نہیں تو کبھی زمین پر پٹخ کر آزماتا ہے کہ بندہ آسمان والے سے مدد مانگتا  ہے یا نہیں ۔ ۔کبھی تیس دن روزوں میں قربانی مانگ کر دیکھتا ہے کہ کون ہمیشہ کی زندگی میں سیراب رہنے کا حقدار ہے اور کون پیاسا جلائے جانے کا۔ ۔  تو کبھی عید دے کر آزماتا ہے کہ کون اپنی میں مگن ہو کر اپنوں کو بھولا ۔ ۔ بس ان آزمائشوں سے نکل کر جو سطح پر آجائے گا وہی کامیاب ہے اور جو دل میں سیاہی لیے ہے وہ ڈوبتا چلا جائے گا۔ ۔ 

؎ فراز عادل



0 comments:

Facebook Blogger Plugin: Bloggerized by AllBlogTools.com Enhanced by MyBloggerTricks.com

ایک تبصرہ شائع کریں