ڈاکٹر گردی نامنظور!
آج پہلی بار کچھ لکھتے ہوئے ایسا ہو رہا ہے کہ مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہا کیسے شروع کروں کہاں ختم کروں کن
الفاظ کا انتخاب کروں کیسے اسے تشکیل دوں کیسے اس میں ربط پیدا کروں اس لیے جو میرے مخصوص ادبی انداز سے لطف اندوز ہونے کیلئے پڑھنا چاہتے ہوں ان سے پیشگی معذرت۔
یہ حادثہ میرے ایک قریبی عزیز کے رشتہ داروں کے ساتھ پیش آیا اور ان کے کہنے پر میں اسے تحریر کر رہا ہوں، اس حادثے کا طب سے متعلق کچھ پیجز نے بھی اشتراک کیا ہے مگر
میری درخواست ہے کہ آپ سب بھی اسے
پڑھیں اور شیئر کریں۔
پڑھیں اور شیئر کریں۔
ذیل میں دی گئی تصویر میں موجود جن خاتون کو آپ دیکھ سکتے ہیں ان کا نام شائستہ
عمر ہے۔ ان کی ڈاکٹر، شہناز حسینی نے ان
کو سیزر آپریشن کیلئے 24 جون کی تاریخ تجویز کی ہوئی تھی۔ 21 جون صبح پونے گیارہ
بجے شائستہ کو درد شروع ہوگیا اور انہیں لیاقت نیشنل ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان
کا کیس ڈیل ہونا پہلے سے طے تھا۔ ان کے شوہر عمر اسلام نے تمام دستاویزات اور فیس
وغیرہ جمع کروا دیے اور ڈاکٹر کو بلوانے کا مطالبہ کیا چونکہ کیس کافی سنجیدہ
نوعیت کا تھا۔ ہسپتال نے شائستہ کو ایڈمٹ تو کر لیا مگر ڈاکٹر شہناز حسینی کی طرف
سے کئی گھنٹوں تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
2 بجے کے قریب شائستہ کی حالات کافی زیادہ بگڑ گئی۔ ڈاکٹر شہناز کو کئی کالیں اور
مسیجز کیے گئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔ مریضہ نے ہسپتال سے متعدد بار درخواست کی مگر
ان کی طرف سے بھی کوئی توجہ نہ دی گئی۔ شائستہ کے شوہر عمر نے بھی ڈاکٹر شائستہ کو
مسیجز کیے اور انہیں بتایا کہ ہسپتال کی انتظامیہ اور ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر فرح اس
کیس کو بالکل بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہے جبکہ مریضہ کی طبیعت سنگین نوعیت اختیار
کرتی جا رہی ہے (مسیج نیچے تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں) مگر پھر بھی کوئی جواب نہ
آیا۔
3 بجے کے قریب جب مریضہ کیلئے تکلیف برداشت کرنا بالکل ممکن نہ رہا تو انہوں نے
انستھیزیا لگانے کی درخواست کی مگر وہ بھی انہیں 1 گھنٹے کی تاخیر یعنی 4 بجے کے قریب دیا گیا۔ ان کے شوہر اس
دوران مستقل ہسپتال انتطامیہ سے سرجری کرنے کا مطالبہ کرتے رہے مگر انتظامیہ انہیں
ٹالتی رہی۔ 5 بجے کے قریب ان کے شوہر نے لیبر روم میں جا کر شائستہ کی حالت دیکھنے
کی کوشش کی تو ہسپتال انتظامیہ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ یقیناً ہسپتال
انتظامیہ کو کیس بگڑنے کا احساس ہو چکا تھا اور شائستہ کی حالت اتنی بگڑ چکی تھی
کہ عمر کو جانے سے روکا گیا ورنہ اس دوران شوہر کو جانے سے کوئی ہسپتال بھی منع
نہیں کرتا۔
وقت گزرتا گیا اور 7 بج گئے تو عمر نے شور مچا دیا اور ہسپتال پر دباؤ ڈالا کہ کسی
اور ڈاکٹر کو ہی بلا لیا جائے مگر بے حسی کا عالم کہ انتظامیہ نے صاف جواب دے دیا
اور کہا کہ یہ کیس ڈاکٹر شائستہ حسینی کا ہے وہی اسے ڈیل کرینگی اور وہ افطار کے
بعد ہی آ سکتی ہیں! یعنی ہسپتال انتظامیہ کو یہ بات معلوم تھی کہ انہوں نے افطار
کے بعد آنا ہے اور وہ شائستہ کی حالت بگڑتے ہوئے بھی مستقل دیکھ رہے تھے اس کے
باوجود انہوں نے اپنی سینئر ڈاکٹر کو ناراض کرنا مناسب نہیں سمجھا مبادا وہ بعد
میں گلہ کریں کہ میرے پیسے آپ نے کسی اور ڈاکٹر کی جھولی میں ڈال دیے۔
8 بج کر 40 منٹ پر مریضہ کے شوہر کے پاس ایک شخص کو مزید دستاویزات دے کر بھیجا
گیا کہ آپ کے بچے اور بیوی کی حالت سنگین ہے اس لیے آپ کو ان پر دستخط کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر شہناز حسینی مریضہ کے ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے کے 10 گھنٹوں کے بعد تشریف
لائیں۔ 10 سے 15 منٹ کے اندر پیدائش ہوئی اور ڈاکٹر شہناز نے عمر کو کال کر کہ بچے
کیلئے وینٹی لیٹر کا بندوبست کرنے کا کہا کہ بچے کی طبیعت بیحد خراب ہے اور اس کے
5 منٹ بعد ہی ڈاکٹر شہناز لیبر روم سے باہر نکل آئیں اور گھر والوں کو یہ بتا کر
واپس جانے لگیں کہ مریضہ کی طبیعت بگڑ گئی ہے اس لیے انہیں انتہائی نگہداشت میں
منتقل کیا جا رہا ہے البتہ وہ ٹھیک ہوجائینگی۔
گھر والوں نے ڈاکٹر کو زبردستی انتہائی نگہداشت میں بھیجا اور دباؤ ڈالا کہ جب تک
وہ ٹھیک نہ ہو آپ نہیں جا سکتیں۔ عمر وینٹی لیٹر کا بندوبست کر کہ سیدھا آئی سی یو
میں چلے گئے اور وہاں جو صورتحال دیکھی وہ شاید الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ شائستہ
کا نچلا دھڑ خون سے بھرا تھا اور خون بھاری مقدار میں مستقل ضائع ہو رہا تھا۔
ڈاکٹرز ان کے حرکتِ قلب واپس لانے کی کوششیں کر رہے تھے مگر ظاہر ہے اس سب کے بعد
اب کیا ہوسکتا تھا؟ عمر یہ سب دیکھ کر چلا اٹھے اور ڈاکٹرز سے سوال کیا تو انہوں
نے بتایا کہ شائستہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ان کا انتقال غالباً سرجری کے دوران
ہی ہوگیا تھا یعنی ڈاکٹر شہناز بہانے بنا کروہاں سے فرار ہونے کی کوشش کر رہی
تھیں۔
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر شہناز اس سے پہلے بھی ایک مریضہ کی جان اسی طرح
لے چکی ہیں۔
ڈاکٹرز کے پیشے کو مقدس پیشہ مانا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے
ہمارے ہاں ڈاکٹرز نے اس مقدس پیشے کو مافیا کی شکل دے دی ہے بلکہ مافیا کہنا بھی
غلط ہوگا کیونکہ ڈرگ مافیا اگر پیسے لیتی ہے تو منشیات بھی فراہم کرتی ہے مگر یہ
کیسی مافیا ہے جو پیسے لیکر اپنے مریضوں کا علاج نہیں کرتی؟ یہ کوئی سیاستدان ہوتے
تو ہم کہتے چلو ہیں ہی کرپٹ۔ ۔ یہ دہشت
گرد ہوتے تو ہم کہتے ان کا کام ہی مارنا ہے ۔ ۔ مگر یہ تو معاشرے کا سب سے پڑھا
لکھا باشعور طبقہ ہے جو دوسروں انسانیت کے درس دیتا ہے ۔ ۔ ہم انہیں کیسے
سمجھائیں؟ انہیں کیسے احساس دلائیں؟ شائستہ اپنے پیچھے جو یہ معصوم بچے چھوڑ گئیں
انہیں کیا بتایا جائے گا کہ معاشرے کے سب سے پڑھے لکھے طبقے نے ہی ان کی ماں کی
جان لے لی؟ ان کی بغاوت کو کون سی دلیل روک پائے گی؟؟ ان کی محرومیاں دنیا کی کون
سی چیز پوری کر پائے گی؟؟؟
ہماری اربابِ اختیار سے یہی
درخواست ہے کہ ہسپتال انتظامیہ کا سخت احتساب کیا جائے، ڈاکٹر شہناز کا لائسنس فوری
طور پر ضبط کر کہ تحقیقات کی جائیں اور انہیں اس کی سزا دی جائے کیونکہ میرے نزدیک
یہ قتل کا کیس ہے جس میں درندہ صفت ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹر نے ایک مریضہ کو ہسپتال
کے کمرے میں بند کر کہ دردناک انجام تک پہنچایا۔ میری تمام لوگوں سے درخواست ہے کہ
اس پیغام کو شیئر کریں، خدارا کسی معاملے پر تو ردِ عمل دکھائیں، ہسپتال و ڈاکٹر مافیا
تک یہ پیغام پہنچنا چاہیے کہ ہماری جانیں اتنی سستی نہیں جتنا یہ سمجھتے ہیں ۔ ۔ ہماری
سانسوں کی قیمت صرف کچھ بڑے نوٹ نہیں۔ ۔ ۔ جان بچانے کا یہ پیشہ پیسے بنانے کی کوئی
صنعت نہیں ۔ ۔ اگر اتنے ہی کم ظرف تھے کہ پیسوں کیلئے جانوں سے کھیلو تو اس پیشے کا لبادہ اوڑھا ہی کیوں ؟؟ڈاکٹر کے بجائے
ڈاکو ہی بن جاتے!! ہم ڈاکٹرز سے بھی گزراش
کرتے ہیں کہ اپنی صفوں سے ان سفاک بھیڑیوں کو نکال پھینکیں کہ آپ انہیں بہتر پہچانتے
ہونگے۔ ۔ ہم خود بھی اپنے حق کی خاطر انصاف
کی خاطر آواز اٹھانا جانتے ہیں۔ ۔ ۔ ہم اس مقدس پیشے کو مافیا کا روپ اختیار نہیں کرنے
دینگے!!
؎فراز
عادل
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں