جمعرات، 16 جولائی، 2015

خود غرض

خود غرض ۔ ۔


Urdu story KHUD GHARZنت نئے زرق برق لباس اور خوبصورت ستاروں سے مزین دوپٹوں کے نظارے ۔ ۔ چمک لگی چوڑیوں کی شوخ سجاوٹیں ۔ ۔ بیگز اور جوتوں کی پرکشش نئی ورائٹی ۔ ۔  خوشبو خانوں سے اٹھنے والی بھینی مسحور کن خوشبوئیں ۔ ۔ سینٹرل اے سی سے نکلنے والی یخ بستہ ہوائیں  ۔ ۔
انعم کو شاپنگ مال کی ہر ہر ادا محبوب تھی۔ خاص طور پر عید پر تو مال میں شاپنگ کرنے کا مزہ ہی دوبالا ہوجاتا۔ ہر طرف خوشگوار چہل پہل، مسرت سے تمتماتے چہرے، کہیں قہقہے کہیں مسکراہٹیں۔ انعم مال آتی تو اس کا واپس جانے کا دل ہی نہ کرتا۔ ۔ ہر بار اماں اسے زبردستی پکڑ کر واپس لے جایا کرتیں ۔ ۔
"اماں اتنی جلدی؟" وہ منہ بسورتی۔

 "بس بیٹا اس سے زیادہ سانس نہیں میری ٹانگوں میں۔ تو تتلی کی طرح اڑتی پھرتی ہے ہر جگہ ۔ ۔ پیچھے پیچھے تو مجھے ہی گھسٹنا پڑتا ہے نا!" اماں بمشکل جواب دے پاتیں اور انعم ان کی حالت دیکھتے ہوئے مجبوراً واپسی کا رخ کرتی۔
مگر اس بار صورتحال یکسر مختلف تھی۔


مگر اس بار صورتحال یکسر مختلف تھی۔ اس سال اس کے ساتھ اماں کے بجائے اس کا شوہر تھا اور یہ انعم کی اپنے شوہر کے ساتھ پہلی عید کی شاپنگ تھی۔ آج گھر کا رخ جلدی کرنے کا سوال ہی نہ بنتا تھا۔
"انعم پلیز تھوڑا جلدی کرو۔ دو گھنٹے گزر گئے اور تم نے ابھی تک ایک جوڑا بھی نہیں لیا۔" یاسر نے ڈرتے ڈرتے التجا کی۔ جواباً انعم نے اس کی طرف بے نیازی سے دیکھا جیسے کہ رہی ہو "یہ باتیں مجھ پر اثر نہیں کیا کرتیں" اور سر جھٹکتی راہداری کے آخری کونے میں موجود ایک بڑی دکان کے اندر گھس گئی۔
"یار دیکھو پلیز اس سے سارے تھان مت نکلوا لینا۔" یاسر نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
"کیوں آپ کو تہ لگانی پڑتی ہے کیا؟" انعم نے تیز آواز میں شوخی سے کہا اور کاؤنٹر پر کھڑے سارے لوگ ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔ یاسر نے کھسیانہ سا قہقہ لگا کر سب کو یقین دلایا کہ سب ٹھیک ہے۔
 "نہیں وہ تم اتنے سارے کپڑے دیکھ کر کنفیوز ہوجاتی ہو نا۔ پھر لیتی کچھ بھی نہیں۔ دکان والا الگ ہلکان ہوتا ہے ۔ ۔ ۔" اس نے بیچارگی سے اپنا موقف بیان کیا۔
"ٹھیک ہے ۔ ۔ اگر آپ میرے ساتھ تھوڑی سی شاپنگ بھی نہیں کر سکتے تو واپس ہی چلتے ہیں۔ مجھے نہیں خریدنا کچھ۔" انعم نے ترپ کا پتہ نکال کر سیدھا یاسر کے سر پر دے مارا۔
"ارے نہیں ۔ ۔ میرا مطلب یہ تھوڑی تھا۔" یاسر بوکھلا گیا۔ "تم آرام سے شاپنگ کرو میں اب کچھ نہیں کہونگا ۔ ۔ بس مجھے سامان پکڑاتی جانا ۔ ۔ یوں سمجھو میں تمہارے ساتھ چلتی پھرتی ٹرالی ہوں۔" یاسر نے فرمانبرداری سے کہا اور انعم کی ہنسی نکل گئی۔ اپنی قسمت پر رشک کرتی وہ دوبارہ انہماک کے ساتھ شاپنگ میں مشغول ہوگئی۔ "بھائی پلیز یہ اوپر کے سارے تھان نکال دیں ۔ ۔ ۔!!"
انعم کی شاپنگ مکمل ہونے میں تقریباً تین اور گھنٹے لگے۔ یاسر کی حالت ابتر ہوچکی تھی مگر وہ کمال استقامت کے ساتھ چہرے پر مسکراہٹ سجائے انعم کی چیزوں کا بوجھ لادے اس کے پیچھے پیچے چل رہا تھا۔ کپڑے، جوتے، بیگز، چادریں اور نجانے کیا کیا سامان تھا جو انعم نے شاپنگ کی مد میں لیا تھا۔ انعم کو بھی آخر اس پر ترس آ ہی گیا۔ "بس یہ آخری دکان ہے ۔ ۔ کچھ آرٹیفشیل جیولری وغیرہ ۔ ۔ " انعم نے نئی دکان میں گھسنے سے پہلے اسے کہا۔
"ملکہ عالیہ ہم نے کب کوئی سوال کیا آپ سے۔" یاسر نے خوش دلی سے اسے تسلی دی۔
کہاں اماں کے ساتھ جھڑکیوں اور ڈانٹ ڈپٹ سے بھرپور اور کہاں یاسر کے ساتھ کی شاپنگ جہاں ہر بات پر تسلی ۔ ۔ ہر چیز میں سہارا ۔ ۔ ڈھیر ساری چیزیں ۔ ۔ نہ خرچہ کی فکر نہ دیر ہونے کی ۔ ۔ "عید منانا کیا ہوتا ہے  ۔ ۔ اس بار پتہ لگا" اس نے خوشی سے سوچا۔
زیورات کی یہ دکان تزئین کاری اور خوبصورتی کے لحاظ سے باقی تمام دکانوں سے کئی دلکش تھی۔ پیروں تلے قیمتی مخملی قالین، سر پر نفیس فانوس خوش وضعانہ انداز میں جھومتے ہوئے، آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے روشن و تاباں جڑاؤ زیورات، گہنے، چوڑیاں ۔ ۔ لطافت و نزاکت اس دکان کے ایک ایک انگ سے جھلکتی تھی۔
انعم کی تو آنکھیں کھلی کی کھلی ہی رہ گئیں۔ "اتنی خوبصورت!!" وہ ایک ایک چیز کو بغور تکنے لگی۔
"یاسر ۔ ۔ یہ شیشہ دیکھیں کتنا مہنگا اور عمدہ معلوم ہوتا ہے۔"  انعم خوشی سے اسے چھو کر بولی۔

یاسر کی آواز آنے سے پہلے ایک زوردار آواز پیدا ہوئی اور پوری دکان اس سے گونج اٹھی ۔ ۔ وہ قیمتی شیشہ انعم کا ہاتھ لگنے سے زمین پر گر کر کرچی کرچی ہو چکا تھا۔ ۔
"یا اللہ ۔ ۔ یہ کیا ہوگیا مجھ سے ۔ ۔  اتنا مہنگا شیشہ ٹوٹ گیا۔ ۔ " اس نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ دکان میں کام کرنے والا عملہ اسے غصیلی نظروں سے گھور رہا تھا ۔ ۔ خصوصاً کاؤنٹر پر بیٹھی دکان کی مالکن ۔ ۔ وہ اسے ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے اس کا خون پی جائے گی ۔ ۔ چند لمحے انعم کو گھورنے کے بعد وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھی اور تیزی سے انعم کی طرف بڑھنے لگی۔ ۔
انعم نے گھبرا کر اپنے واحد سہارے کی طرف دیکھا ۔ ۔ "یاسر ۔ ۔ ۔!!" اس کے منہ حیرت سے کھلا رہ گیا ۔ ۔ یاسر کا نام و نشان تک دکان میں موجود نہ تھا۔
"میڈم ۔ ۔ آپ کو معلوم ہے آپ نے کتنا مہنگا شیشہ توڑ دیا ہے؟" مالکن اس کے پاس پہنچ کر غرائی۔
"میں ۔ ۔ وہ ۔ ۔ آئی ایم سوری ۔ ۔ میرے شوہر آپ کو اس کی قیمت ۔ ۔" انعم گھگیانے لگی۔
"تمہارا دماغ تو نہیں خراب؟ کن خیالوں میں گم رہتی ہو؟" مالکن چلائی۔ ۔  انعم کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔
" اب سر جھکائے کیا کھڑی ہو ۔ ۔ جلدی اٹھاؤ سارا شیشہ۔ اس کی قیمت تمہارے عید سیزن کی تنخواہ میں سے کٹے گی۔ ۔  اور اب ایک بھی نقصان کیا تو عید سیزن پر کچھ گھر لے جانے کے بجائے کچھ دے کر جانا پڑے گا۔" مالکن اسے تنبیہ کر کہ پیر پٹختے کاؤنٹر پر واپس چلی گئی۔
انعم تھکے تھکے قدموں سے ایک شاپر لا کر اس میں شیشہ بھرنے لگی ۔ ۔ ایک ایک کرچی کو اٹھا کر اسے بغور دیکھتی ۔ ۔ کسی میں اسے وہ کپڑے نظر آتے جو اس نے تھوڑی دیر پہلے یاسر کے ساتھ لیے تھے ۔ ۔ کسی میں اس کے پسندیدہ جوتے ۔ ۔ کسی میں پرس ۔ ۔ ایک بڑے سے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے سے انعم کا ہاتھ بھی کٹا ۔ ۔ رومال سے خون صاف کرتے ہوئے اس نے اس ٹکڑے کو خشمگیں نظروں سے گھورا ۔ ۔  اس میں اسے یاسر نظر آیا ۔ ۔ مگر اب وہ بالکل خاموش تھا ۔ ۔ شاید اس کے پاس تسلی دینے کیلئے کوئی الفاظ نہیں بچے تھے۔ ۔  انعم نے جھینپ کر اس سے نظریں چرا لیں۔ ۔

پچھلے سال انعم کی بیمار ماں دنیا چھوڑ گئی تھی ۔ ۔ گھر پر صرف ایک لاغر محتاج باپ اور ایک چھوٹا بھائی بچا تھا ۔ ۔ ایسے میں انعم کے پاس یاسر سے 3 سالہ منگنی توڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔ ۔

ساری کرچیاں سمیٹنے کے بعد اور خود کو دوبارہ جمع کر کہ انعم کھڑی ہوگئی ۔ ۔ "آدھی تنخواہ تو گئی ۔ ۔ اچھی بھلی ابا جان کی دو مہینے کی دوائیاں آ جاتیں ۔ ۔ منے کی اسکول کی فیس اور عید شاپنگ بھی اچھے سے ہوجاتی ۔ ۔ اب کیسے ہوگا یہ سب  ۔ ۔ اپنی خوابوں کی دنیا کی سیر کے پیچھے کتنا نقصان کر دیا گھر والوں کا ۔ ۔ کتنی خود غرض ہے تو انعم ۔ ۔!!" اس نے اپنی خود غرضی پر نکلتا آنسو پونچھا اور دل جمعی سے کام پر لگ گئی۔



٭٭یہ افسانہ صرف انعم یا صنفِ نازک کیلئے نہیں ۔ ۔  یہ ان تمام لوگوں کیلئے ہے جو روزانہ اپنی خواہشات کے نرخرے پر اپنے فرض کا جوتا رکتھے ہوئے اپنی ذمہ داریاں اٹھانے نکل پڑتے ہیں  ۔ ۔ اپنے حصے کی محبتوں کو نظر انداز کیے ۔ ۔ اپنے جذبات سرد مٹی تلے دفن کیے  ۔ ۔ اپنی زندگی کا ایک اور دن اپنے پیاروں کے نام کیے ۔ ۔ اپنی زندگی کی ایک اور خوبصورت شام سے دستبردار ہوتے ہوئے ۔ ۔ اپنی 'ڈیوٹی' نبھاتے جا رہے ہیں ۔ ۔ خود سے بیگانے ہو کر اپنوں کیلئے جیتے جا رہے ہیں ۔ ۔ ان تمام 'خود غرضوں' کو فراز عادل کا سلام اور عید مبارک!!

؎ فراز عادل







0 comments:

Facebook Blogger Plugin: Bloggerized by AllBlogTools.com Enhanced by MyBloggerTricks.com

ایک تبصرہ شائع کریں