
"زمین کے اس طول و عرض میں مجھ جیسا عظیم فاتح کسی نے
نہ دیکھا ۔ ۔ ۔ انسان کی تاریخ مجھ جیسے عظیم فاتح کا مماثل ظاہر کرنے سے قاصر ہے
۔ ۔ ۔ مگر میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا مستقبل میں کوئی ایسا مردِ آزما نظر آتا ہے
جو میری فتوحات کے اس انبار کو معمولی کر دکھائے؟"
خیمہ دربار میں سناٹا چھا گیا ۔ ۔ ۔
سب کے دل گواہی دے رہے تھے کہ ایسا ممکن نہیں ۔ ۔ ۔ مگر سکندرِ اعظم کے حکم کی تکمیل ضروری تھی سو صاحب علم سر جھکا کر زائچے بنانے لگے اور اعداد و شمار سے کھیلنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں نجومیوں کی ماتھے پر شکنوں کا راج تھا۔ ۔ ۔ پسینہ قطرہ قطرہ کر کہ کنپٹیوں سے گرنے لگا ۔ ۔ ۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔ ۔ ۔ کاغذ پھاڑے دوبارہ لکیریں کھینچ ڈالیں ۔ ۔ ۔ مگر پھر وہی ناقابلِ تصور ۔ ۔ ۔ دوسری طرف سکندرِ اعظم پتھر جیسا خاموش و سنجیدہ چہرہ لیے جواب کا منتظر۔ ۔ ۔
سب کے دل گواہی دے رہے تھے کہ ایسا ممکن نہیں ۔ ۔ ۔ مگر سکندرِ اعظم کے حکم کی تکمیل ضروری تھی سو صاحب علم سر جھکا کر زائچے بنانے لگے اور اعداد و شمار سے کھیلنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں نجومیوں کی ماتھے پر شکنوں کا راج تھا۔ ۔ ۔ پسینہ قطرہ قطرہ کر کہ کنپٹیوں سے گرنے لگا ۔ ۔ ۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔ ۔ ۔ کاغذ پھاڑے دوبارہ لکیریں کھینچ ڈالیں ۔ ۔ ۔ مگر پھر وہی ناقابلِ تصور ۔ ۔ ۔ دوسری طرف سکندرِ اعظم پتھر جیسا خاموش و سنجیدہ چہرہ لیے جواب کا منتظر۔ ۔ ۔
آخر نجومیوں کے استاد نے کمر باندھی اور اٹھ کر کھڑا ہوا ۔
۔ ۔ "اے فاتح عظیم ۔ ۔ ۔ اے پامردِ لازوال ۔ ۔ ۔ اے مردِ بازی ۔ ۔ ۔ اے مردِ
تمام ۔ ۔ ۔ اسے تقدیر کا لکھا سمجھیں یا ستاروں کی سازش ۔ ۔ ۔ ہم حقیروں پر
تحقیروں کی بے ادبی سمجھیں یا ان بے فائدہ نقش و نگار کی گستاخی ۔ ۔ ۔ مگر آپ کی
تشویش کا جواب یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ بحرہ عرب کے
جنوب سے آنے والی ہوائیں ایک ایسی ہستی کا عندیہ لاتی ہیں جو اگر آپ کی روش اختیار
کرے تو آپ کی یہ بے نظیر سلطنت اس کی فتوحات کے مقابل ادنی و بے مایہ لگیں۔"
یہ کہ کر نجومی نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنی گردن ماری جانے
کا حکمِ شاہی سننے کا انتظار کرنے لگا۔ ۔ ۔
"کیا یہ مردِ افگن اس دنیا میں تشریف لا چکے
ہیں؟" خلاف توقع سکندر نے ایسا کوئی فرمان جاری نہیں کیا ۔ ۔ ۔ اس کا چہرہ تو
خوشی اور عقیدت کی حدت سے تمتما رہا تھا۔ ۔ ۔
"نن۔ ۔ ۔ نہیں شاہِ عظیم ۔ ۔ ۔ ان کی پیدائش میں ابھی
کئی ہزار بیتاب و بیقرار ساعتوں کا التجاء کرنا باقی ہے۔" نجومی نے سہمے ہوئے
انداز میں جواب دیا۔
جواباً سکندر نے ایک سرد آہ بھری اور خاک اٹھا کر سر پر
ڈالنے لگا ۔ ۔ ۔ "اے نادانوں تمہیں کیا معلوم ۔ ۔ ۔ سکندرِ اعظم کی عظمت کا
راز یہی مردِ پیر ہیں ۔ ۔ ۔ انہوں نے ہی خواب میں جلوہ گر ہو کر ایک روز مجھ ادنی
غلام کو لشکر کشی کا حکمِ با سعادت دیا ۔ ۔ ۔ اور آج تم کہتے ہو کہ میں اپنی اس لاحاصل
زندگی میں ان کی زیارت نہیں کر پاؤنگا ۔ ۔ ۔
افسوس صد افسوس ۔ ۔ ۔ کاش کے میرا شمار اچھا نصیب لکھوا کر پیدا ہونے والوں
میں ہوتا ۔ ۔ ۔"
سکندر نے اس بری خبر کو ایسا دل سے لگایا کہ کچھ ہی عرصہ
میں بیمار ہو کر قبر میں جا اترا۔
مگر نجومیوں کی پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ سکندر کی
موت کے سینکڑوں سال بعد جب تہذیبیں پروان چڑھیں اور نئی بستیاں آباد ہوئیں تو بحرہ
عرب کے جنوب میں قائم ہونے والے شہر میں ایک عجیب واقع پیش آیا۔ ایک روز جب ہیبت
ناک کالی گھٹاؤں نے آسمان کو نگل رکھا تھا ۔ ۔ ۔ لوگ دھوپ میں جھلستے ۔ ۔ بارش سے بچتے ۔ ۔ برف سے ڈھکے راستوں پر ڈگمگاتے اپنے گھروں کی
طرف روانہ تھے کہ اچانک ایک لطیف سی آواز نے سب کو چونکا دیا ۔ ۔ ۔ "اوئیں ۔
۔ اوئیں ۔ ۔ ۔"
جی ہاں دوستو ۔ ۔ ۔ آخر وہ بچہ پیدا ہوا جس کا انتظار کرنے
والوں کے ڈھانچے بھی گل چکے تھے ۔ ۔ ۔ چھوٹے سے چہرے پر پاور پف گرلز جتنی بڑی
آنکھیں لے کر پیدا ہونے والا یہ بچہ منطق میں پی ایچ ڈی کر کہ پیدا ہوا۔ کہتے ہیں
جب مولوی صاحب اس کے کان میں آذان دینے لگے تو اس نے مولوی صاحب کا ہاتھ پکڑ کر
کہا ۔ ۔ "مولوی صاحب عصر میں 2 گھنٹے باقی ہیں یہ کونسا ٹائم ہے آذان
کا؟" یہ سننا تھا کہ مولوی صاحب استغفار کا نعرہ لگا کر چھلانگیں لگاتے ہوئے
وہاں سے فرار ہوگئے۔
یہ بچہ ذرا سا بڑا ہوا تو اس نے بھانپ لیا کہ وہ کوئی عام
انسان نہیں ۔ ۔ ۔ یقیناً اسے اس دنیا میں کسی خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے ۔ ۔ اس
بات کا ادراک ہوتے ہی بچے نے اسکول کے بعد باقاعدگی سے 4 گھنٹے کنچے کھیلنا شروع
کر دیے ۔ ۔ ۔ گھر والے اس کی عادات دیکھ کر حیران رہ ہوتے کہ ۔ ۔ آخر انہیں کس جرم کی سزا ملی ہے جو ایسا بچہ اس
گھر میں پیدا ہوا؟
کچھ سالوں میں بچہ کو احساس ہوگیا کہ کنچوں میں کوئی خاص
مستقبل نہیں سو اس نے خلاء باز بننے کا سوچا۔ ہر بڑے آدمی کی طرح اس کی باتوں پر
بھی ابتداء میں کسی نے کان نہ دھرے مگر اس بچے نے ہار نہ مانی۔ وسائل اور تکنالوجی
کی کمی کے باوجود اس بچے نے خلاء باز بن کر دکھایا!! اس نے لیاری کے پل کے نیچے
بیٹھے بیٹھے کائنات کے کئی راز افشاء کیے اور کئی سیاروں کی سیر کی۔ بدقسمتی سے
ایک روز اس کے بڑے بھائی نے اسے عین اس وقت چھاپ لیا جب وہ سیارہ کیوان پر زندگی
کے آثار تقریباً ڈھونڈ ہی چکا تھا۔ اس دن کے بعد سے اس کی خلاء بازی پر مستقل
پابندی لگ گئی اور اس سے خلاء بازی کا ضروری سامان (ماچس ۔ ۔ سگریٹ ۔ ۔ چرس) بھی
لے لیا گیا۔
مگر اس بچے کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا (سوائے
تیز ہوا کے)۔ خلاء بازی کے بعد اس نے مارشل آرٹس کا رخ کیا اور دل جمعی سے کنگفو
سیکھنے لگا۔ اس کی مارشل آرٹ پر تھیوریاں اور تحقیقات جلد ہی کنگفو ماسٹروں کیلئے
دردِ سر بن گئیں۔ اس نے اپنی مشہور کتاب "کرارے کراٹے" میں بروس لی پر سخت
تنقید کی اور لکھا کہ "اگر وہ منحوس قسم کی کالی بلی جیسی آوازیں نکالنے کے بجائے اپنے کنگفو پر
محنت کرتا تو یقیناً آج اس کا کوئی نام ہوتا" ۔ ۔ ۔ نیز جیکی چین کے بارے میں
بھی اس کا یہ کہنا تھا کہ جیکی نے فلموں میں آ کر خود کو برباد کر لیا ۔ ۔ اگر وہ دس پندرہ سال مزید کنگفو سیکھتا
(بالخصوص مجھ سے) تو وہ بھی مارشل آرٹسٹ کہلانے کے لائق ہوتا۔" اس کتاب کے
شائع ہوتے ہی اس بچہ پر کلبوں کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہوگئے اور مارشل آرٹس
کمیونٹی نے اس پر تاحیات پابندی عائد کر دی۔
قسمت کی سفاک لہروں پر کھگا مچھلی کی طرح حیرانی و پریشانی سے
منہ کھول کر بہتے ہوئے یہ بچہ درِ فارمیسی پر جا پہنچا۔ 5 سال دن رات محنت کرنے کے
بعد جب دونوں (فارمیسی اور بچے) کی اچھی طرح تسلی ہوگئی کہ ان کی آپس میں کبھی
نہیں بن پائے گی تو بچے نے اپنا راستہ الگ کر لیا اور قلم اٹھا لیا۔
قلم اٹھاتے ہی اس بچے پر لوگوں کی محبت بارش کی طرح برسنے
لگی۔ اس کی حرکتیں البتہ پھر بھی درست نہ ہوئیں۔ یہ اپنے قارئین کو آج بھی گمراہ
کن کہانیاں سنانے بیٹھ جاتا ہے جو طلوع مغرب سے ہوتی ہیں اور غروب مشرق میں۔ ادب کی نامور شخصیات پر یہ وقتاً فوقتاً ایسے آوازیں کستا ہے جسے گلی میں بیٹھے چھیچھورے لڑکے
علاقے کی واحد لڑکی نما مخلوق پر کستے ہیں۔
"شیکسپیئر اگر لکھنا شروع کرنے سے پہلے ایک اچھا انگلش
لنگوئج کورس کر لیتا تو اس کی تحریریں کچھ جاندار ہو سکتی تھیں۔ نیز ڈرامہ لکھنے
سے پہلے اسٹار پلس پر تلسی ویرانی کی سو قسطیں دیکھنا لازم ہے لیکن شیکشپیئر اس
معیار پر بھی پورا نہیں اترتا۔"
"غالب نے شاعری میں اردو کا بے دریغ استعمال کیا ہے ۔
۔ ۔ آپ خود بتائیں فضول خرچی کوئی قابلِ تحسین عمل ہے؟"
"جون ایلیاء اگر اپنی کتابوں کے سرورق پر اپنی تصویریں
نہ لگواتے ہوتے تو اپنی زندگی میں بھی کافی مشہور ہو سکتے تھے۔"
اور اس طرح کے دیگر کئی گستاخانہ فقرے کسنے کے بعد قوی
امکانات ہیں کہ اس بچہ کو جلد دنیائے ادب سے بھی باہر نکال پھینکا جائے گا مگر فی
الحال اس کے مخلص قاری اسے بچائے ہوئے بیٹھے ہیں۔
دوستوں کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج اس عظیم شخصیت کا جنم دن
ہے مگر ہم میں سے بیشتر لوگ اس سے بے خبر ہیں ۔ ۔ ۔ یہ خبر ہمارا دجالی میڈیا آپ
کو کبھی نہیں دے گا مگر ہم نے آپ تک پہنچا دی۔ حسبِ توفیق مبارکباد پیش کر کہ
ثوابِ دارین حاصل کریں!
؎ فراز عادل
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں