یہ میری ماں ہیں:
مسز تھامسن امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر گارلینڈ میں پرائمری اسکول
کلاس 5 کی ٹیچر تھیں۔ ان کی ایک عادت تھی کہ وہ کلاس شروع کرنے سے پہلے ہمیشہ
"آئی لو یو آل" بولا کرتیں۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ سچ نہیں کہتیں۔ وہ
کلاس کے تمام بچوں سے یکساں پیار نہیں کرتی تھیں۔ کلاس میں ایک ایسا بچہ تھا جو
مسز تھامسن کو ایک آںکھ نہ بھاتا۔ اس کا نام جیڈی تھا۔ جیڈی میلی کچیلی حالت میں
اسکول آجایا کرتا۔ اس کے بال بگڑے ہوئے ہوتے، جوتوں کے تسمے کھلے ہوئے، قمیض کے
کالر پر میل کا نشان۔ ۔ ۔ لیکچر کے دوران بھی اس کا دھیان کہیں اور ہوتا۔ مسز
تھامسن کے ڈانٹنے پر وہ چونک کر انہیں دیکھنے تو لگ جاتا مگر اس کی خالی خولی
نظروں سے
انہیں صاف پتہ لگتا رہتا کہ جیڈی جسمانی طور پر کلاس میں موجود ہونے کے
باوجود بھی دماغی طور پر غائب ہے۔رفتہ رفتہ مسز تھامسن کو جیڈی سے نفرت سی ہونے لگی۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی جیڈی مسز تھامسن کی سخت تنقید کا نشانہ بننے لگتا۔ ہر بری مثال جیڈی کے نام سے منسوب کی جاتی۔ بچے اس پر کھلکھلا کر ہنستے اور مسز تھامسن اس کی تذلیل کر کہ تسکین حاصل کرتیں۔ جیڈی نے البتہ کسی بات کا کبھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ مسز تھامسن کو وہ ایک بے جان پتھر کی طرح لگتا جس کے اندر احساس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہر ڈانٹ، طنز اور سزا کے جواب میں وہ بس اپنی جذبات سے عاری نظروں سے انہیں دیکھا کرتا اور سر جھکا لیا کرتا۔ مسز تھامسن کو اب اس سے شدید چڑ ہو چکی تھی۔ پہلا سیمسٹر ختم ہوا اور رپورٹیں بنانے کا مرحلہ آیا تو مسز تھامسن نے جیڈی کی پروگریس رپورٹ میں اس کی تمام برائیاں لکھ ماریں۔ پروگریس رپورٹ والدین کو دکھانے سے پہلے ہیڈ مسٹریس کے پاس جایا کرتی تھی۔ انہوں نے جب جیڈی کی رپورٹ دیکھی تو مسز تھامسن کو بلا لیا۔ "مسز تھامسن پروگریس رپورٹ میں کچھ تو پروگریس بھی نظر آنی چاہیے۔ آپ نے تو جو کچھ لکھا ہے اس سے جیڈی کے والدین اس سے بالکل ہی نا امید ہو جائینگے۔" "میں معذرت خواہ ہوں مگر جیڈی ایک بالکل ہی بدتمیز اور نکما بچہ ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اس کی پروگریس کے بارے میں کچھ لکھ سکتی ہوں۔" مسز تھامسن نفرت انگیز لہجے میں بول کر وہاں سے اٹھ آئیں۔ ہیڈ مسٹریس نے ایک عجیب حرکت کی۔ انہوں نے چپڑاسی کے ہاتھ مسز تھامسن کی ڈیسک پر جیڈی کی گزشتہ سالوں کی پروگریس رپورٹس رکھوا دیں۔ مسز تھامسن کلاس میں داخل ہوئیں تو رپورٹس پر نظر پڑی۔ الٹ پلٹ کر دیکھا تو پتہ لگا کہ یہ جیڈی کی رپورٹس ہیں۔ "پچھلی کلاسوں میں بھی اس نے یقیناً یہی گل کھلائے ہونگے۔" انہوں نے سوچا اور کلاس 3 کی رپورٹ کھولی۔ رپورٹ میں ریمارکس پڑھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ رپورٹ اس کی تعریفوں سے بھری پڑی ہے۔ "جیڈی جیسا ذہین بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔" "انتہائی حساس بچہ ہے اور اپنے دوستوں اور ٹیچر سے بے حد لگاؤ رکھتا ہے۔" "آخری سیمسٹر میں بھی جیڈی نے پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔" مسز تھامسن نے غیر یقینی کی حالت میں کلاس 4 کی رپورٹ کھولی۔ "جیڈی نے اپنی ماں کی بیماری کا بے حد اثر لیا ہے ۔ ۔اس کی توجہ پڑھائی سے ہٹ رہی ہے۔" "جیڈی کی ماں کو آخری اسٹیج کا کینسر تشخیص ہوا ہے ۔ ۔ گھر پر اس کا اور کوئی خیال رکھنے والا نہیں جس کا گہرا اثر اس کی پڑھائی پر پڑا ہے۔" "جیڈی کی ماں مر چکی ہے اور اس کے ساتھ ہی جیڈی کی زندگی کی رمق بھی ۔ ۔ اسے بچانا پڑے گا اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے۔" مسز تھامسن پر لرزہ طاری ہوگیا۔ کانپتے ہاتھوں سے انہوں نے پروگریس رپورٹ بند کی۔ آنسو ان کی آنکھوں سے ایک کے بعد ایک گرنے لگے۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔
)نوٹ: یہ تحریر میری تخلیق نہیں۔ مدتوں
پہلے کسی سے زبانی سنی تھی۔ نام، وقوع وغیرہ تو سب ذہن کی تختی سے صاف ہوگئے مگر
اس کہانی کا متن اب تک دل پر ثبت ہے۔ سوچا اسے لکھ کر آپ لوگوں کی خدمت میں بھی
پیش کروں۔ پسند آئے تو شیئر کریئے گا اورپیج لائیک کرنا نہ بھولیے گا(
اگلا اور آخری حصہ پڑھنے
کیلئے یہاں کلک کریں: یہ میری ماں ہیں دوسرا اور آخری حصہ
-فراز عادل
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں