میرا پاکستان کہاں گیا۔۔۔!!؟؟

(یومِ آزادی اسپیشل ۔ ۔ دل کو چھو جانے والی کہانی۔ مکمل ضرور پڑھیں!)
بابر نائی کی دکان پر کیا حجام کیا حجامت بنوانے والے اور کیا حجامت کے منتظر ۔ ۔ سب ہی دکان کے ایک اونچے کونے پر نصب چھوٹے سے ٹی وی پر پورے جوش اور انہماک کے ساتھ پڑوسی فلم کا ایک سنسنی خیز ہاکی میچ سین دیکھنے میں مشغول تھے ۔ ۔ "وہ مارا۔۔۔!!" گول ہوتے ہی ایک نوجوان نے جوشیلے انداز میں مٹھی لہرا کر نعرہ مارا اور فضا بیک گراؤنڈ میں چلنے والے پڑوسی ملک کے ترانے سے گونج اٹھی ۔ ۔ ۔
ٹھش ش ش۔۔۔!!!
ابھی جشن پورا نہیں ہوا تھا کہ ایک بڑا سا پتھر گولی کی رفتار سے آ کر سیدھا اسکرین پر لگا اور ٹی وی ٹوٹنے کی زوردار آواز نے سب کو سکتے میں ڈال دیا۔
"ابے ۔ ۔ پھر توڑ دیا میرا ٹی وی ۔ ۔ یہ مستانہ کہاں سے گھس آیا تھا دکان میں
۔ ۔ اوئے تجھے بولا بھی تھا نظر رکھنا اس پر۔۔" بابر نائی اس اچانک پڑنے والی افتاد پر پہلے تو گھبرایا پھر چاچا مستانہ کو دیکھ کر سارا معاملہ فوراً سمجھ گیا۔ یہ اس کا دوسرا ٹی وی تھا جو چاچا مستانہ نے بے رحمی سے توڑ دیا تھا۔ ۔
"ہٹ جا آج نہیں چھوڑونگا اسے ۔ ۔" بابر نائی نے وہی بڑا سا پتھر اٹھا کر بھاگتے ہوئے چاچا کے سر کا نشانہ لیا اور پوری قوت سے ان کی طرف اچھال دیا۔ پتھر چاچا کے سر کے پچھلے حصے پر جا کر لگا اور چاچا وہیں ڈھیر ہوگئے۔ بابر نائی نے ان کے پیچھے بھاگنے کی کوشش کی مگر لوگوں نے اسے آن پکڑا اور ٹھنڈا کیا۔ چاچا تھوڑی دیر گرے رہنے کے بعد خود ہی دھیرے دھیرے اٹھے ۔ ۔ سر سے رستے خون پر ایک بار ہاتھ پھیرا اور کچھ بڑبڑاتے ہوئے واپس چل دیے۔
چاچا مستانہ اس متوسط علاقے کے ستر اسّی سالہ نیم پاگل دھان پان سے مکین تھے ۔ ۔ اپنے اینٹ پتھر کے بنے چھوٹے سے ٹوٹے پھوٹے مکان میں چاچا بالکل اکیلا رہا کرتے تھے ۔ ۔ ان کے ہمسایوں میں کچرا کونڈی اور گلی کے کچھ آوارہ کتے شامل تھے ۔ ۔ علاقے کے اس طرف اور کسی نے کبھی مکان بنانا گوارہ نہیں کیا تھا۔ ۔ راہ چلتے لوگوں کے گلے پڑ جانا ۔ ۔ علاقہ مکینوں کو بغیر کسی وجہ کے کھری کھری سنانا ۔ ۔ ٹی وی پر سیاستدانوں کو دیکھ کر گالیاں نکالنا اور اکثر دکانوں کے ٹی وی پتھر مار کر توڑ دینا چاچا کے پسندیدہ مشغلے تھے اور انہی مشغلوں کی بنیاد پر انہیں چاچا مستانہ کا لقب بھی ملا تھا۔ پہلے پہل تو چاچا پھر بھی کسی سے بات چیت کرتے نظر آجایا کرتے تھے مگر اب کافی سالوں سے وہ محض کچھ بڑبڑانے پر ہی اتفاق کیے ہوئے تھے ۔ ۔ وہ کیا بڑبڑاتے پھرتے تھے ۔ ۔ کسی کو معلوم نہیں تھا ۔ ۔ معلوم تھا تو بس اتنا کے چاچا سے جتنا دور رہا جائے اتنا ہی اچھا ہے کیوں کہ ان کا میٹر گھومتے ہوئے ذرا دیر نہیں لگتی۔
"نانا ابو ۔ ۔ یہ چاچا مستانہ کون ہیں؟" اٹھارہ سالہ عرفان جو نائی کی دکان پر ہونے والا سارا منظر دیکھ رہا تھا گھر آ کر اپنے نانا کے پاس سوال کرنے جا پہنچا۔ عرفان کچھ عرصہ چھٹیاں گزارنے اپنے نانا اور نانی کے گھر آیا ہوا تھا۔
"کیوں کیا کر دیا اس نے پھر سے؟" جواد صاحب نے
چونک کر اخبار سے نظر ہٹائی اور عرفان پر جما دی۔
"وہ ۔ ۔ آپ بتائیں تو کون ہیں وہ۔ ۔" ان کا ردِ عمل دیکھ کر عرفان کچھ محتاط ہوگیا ۔ ۔ مگر جواد صاحب بدستور اسے اپنی عینک کے پیچھے سے استفہامیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ ۔ ظاہر ہے کہ وہ پہلے اپنی بات کا جواب چاہتے تھے۔
"انہوں نے ۔ ۔ وہ جو باہر نائی والا ہے نا ۔ ۔ اس کا ٹی وی توڑ دیا ۔ ۔" عرفان نے جان بوجھ کر پر پوری روداد سنانے سے گریز کیا۔
جواد صاحب نے ایک طویل سانس بھری اور ماتھے پر کچھ اضافی شکنوں کے ساتھ دوبارہ اخبار کی طرف متوجہ ہوگئے۔
"نانا ابو بتائیں نا پلیز ۔ ۔ کون ہیں وہ؟" عرفان کا تجسس اب اور بڑھ چکا تھا کیونکہ جواد صاحب کے تاثرات سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ چاچا مستانہ کو نہ صرف اچھے سے جانتے ہیں بلکہ ان کے متعلق فکر مند بھی ہیں۔
"اچھا بیٹھو ۔ ۔" انہوں نے اخبار ایک طرف رکھا اور اسے اپنے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ "چاچا مستانہ میرا بچپن کا دوست ہے ۔ ۔ اور اس کا اصل نام لیاقت ہے ۔ ۔" جواد صاحب نے اپنی موٹی سی عینک اتار کر اس کا فریم کھرچتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔ ۔ عرفان بے اختیار اچھل پڑا مگر منہ کھولنے سے کسی نہ کسی طرح خود کو روک لیا۔
"میں جب اس سے ملا تھا تب اس کی عمر شاید 8 سال تھی ۔ ۔ لیاقت اس وقت ایسا نہیں تھا ۔ ۔ لیاقت شروع سے ایسا نہیں تھا" جواد صاحب نے ماضی میں جھانکتے ہوئے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔
"آپ ۔ ۔ کیسے ملے ان سے؟؟" عرفان نے ہلکی سی آواز میں پوچھا ۔ ۔ اس کیلئے اس وقت گفتگو کے درمیان جواد صاحب کے مخصوص طویل وقفے برداشت کرنا کافی مشکل ہو رہا تھا۔
"وہ ۔ ۔ آپ بتائیں تو کون ہیں وہ۔ ۔" ان کا ردِ عمل دیکھ کر عرفان کچھ محتاط ہوگیا ۔ ۔ مگر جواد صاحب بدستور اسے اپنی عینک کے پیچھے سے استفہامیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ ۔ ظاہر ہے کہ وہ پہلے اپنی بات کا جواب چاہتے تھے۔
"انہوں نے ۔ ۔ وہ جو باہر نائی والا ہے نا ۔ ۔ اس کا ٹی وی توڑ دیا ۔ ۔" عرفان نے جان بوجھ کر پر پوری روداد سنانے سے گریز کیا۔
جواد صاحب نے ایک طویل سانس بھری اور ماتھے پر کچھ اضافی شکنوں کے ساتھ دوبارہ اخبار کی طرف متوجہ ہوگئے۔
"نانا ابو بتائیں نا پلیز ۔ ۔ کون ہیں وہ؟" عرفان کا تجسس اب اور بڑھ چکا تھا کیونکہ جواد صاحب کے تاثرات سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ چاچا مستانہ کو نہ صرف اچھے سے جانتے ہیں بلکہ ان کے متعلق فکر مند بھی ہیں۔
"اچھا بیٹھو ۔ ۔" انہوں نے اخبار ایک طرف رکھا اور اسے اپنے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ "چاچا مستانہ میرا بچپن کا دوست ہے ۔ ۔ اور اس کا اصل نام لیاقت ہے ۔ ۔" جواد صاحب نے اپنی موٹی سی عینک اتار کر اس کا فریم کھرچتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔ ۔ عرفان بے اختیار اچھل پڑا مگر منہ کھولنے سے کسی نہ کسی طرح خود کو روک لیا۔
"میں جب اس سے ملا تھا تب اس کی عمر شاید 8 سال تھی ۔ ۔ لیاقت اس وقت ایسا نہیں تھا ۔ ۔ لیاقت شروع سے ایسا نہیں تھا" جواد صاحب نے ماضی میں جھانکتے ہوئے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔
"آپ ۔ ۔ کیسے ملے ان سے؟؟" عرفان نے ہلکی سی آواز میں پوچھا ۔ ۔ اس کیلئے اس وقت گفتگو کے درمیان جواد صاحب کے مخصوص طویل وقفے برداشت کرنا کافی مشکل ہو رہا تھا۔
"یہیں ۔ ۔ اس ہی علاقے میں تو ملا تھا لیاقت
مجھے۔" انہوں نے کچھ مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ۔ ان کی آنکھیں مسلسل خبر دے رہی
تھیں کہ اب وہ عرفان کے سامنے نہیں بیٹھے ہوئے بلکہ ماضی کی یادوں میں پوری طرح گم
ہو چکے ہیں۔
"مجھے بتایا تھا اس نے اپنے بارے میں ۔ ۔ ۔ پنجاب میں رہتا تھا لیاقت ۔ ۔ ہندوستان کے پنجاب میں۔۔ جب پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ اس کے سارے گھر والے ہی مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے ۔ ۔ ۔ جناح صاحب کی ایک آواز پر لبیک کہنے والے ۔ ۔ تحریکِ پاکستان کیلئے دن رات جدوجہد کرنے والے ۔ ۔ آخر سب کی محنتیں بھی رنگ لائیں ۔ ۔ دعائیں بھی قبول ہوئیں ۔ ۔ اور پاکستان آزاد ہوگیا ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔"
"مگر ۔ ۔؟" عرفان نے لقمہ دیا۔
"مگر ۔ ۔ پاکستان ہجرت کرنے سے ایک رات پہلے ۔ ۔ شدت پسندوں نے ان پر حملہ کر دیا ۔ ۔ وہ پر امن مسلمانوں کی بستی تھی جن کا جرم صرف اتنا تھا کہ اپنی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ اپنے حاصل کردہ ملک جانا چاہتے تھے ۔ ۔ ظالموں نے اس جرم کی کتنی بڑی سزا دی انہیں ۔ ۔ جو ہاتھ آیا اسے کاٹ دیا ۔ ۔ نہ عورتوں پر ترس کھایا نہ دودھ پیتے بچوں پر رحم ۔ ۔ لیاقت کہتا ہے اس کے سامنے ایک دہشت گرد نے اس کی ماں کا پیٹ تلوار سے چاک کیا پھر اسی تلوار سے اس کے باپ کی گردن اڑا دی ۔ ۔ اس کی چھوٹی بہن کو تو تلوار کی بھی ضرورت نہ پڑی۔ ۔ وہ دو سال کی معصوم بچی زمین پر پٹخے جانے سے ہی دم توڑ گئی ۔ ۔ یہ مچان پر چھپا سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا ۔ ۔ خوف کے مارے نہ حرکت کر سکا نہ اس کی آواز نکل سکی ۔ ۔ شاید اس ہی وجہ سے یہ بچ بھی گیا۔ ۔ مگر امن پسند بے گناہ مسلمانوں کی اس بستی میں لیاقت اور ایک اور بابا جی کے سوا کوئی نہیں بچ سکا ۔ ۔ ظالموں نے پاک خون پانی کے طرح بہا دیا ۔ ۔" جاوید صاحب لمحہ بھر کیلئے خاموش ہوئے۔ اس بارعرفان کچھ کہنے سے قاصر تھا ۔ ۔ اس کے جسم پر لرزہ طاری تھا۔
"مجھے بتایا تھا اس نے اپنے بارے میں ۔ ۔ ۔ پنجاب میں رہتا تھا لیاقت ۔ ۔ ہندوستان کے پنجاب میں۔۔ جب پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ اس کے سارے گھر والے ہی مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے ۔ ۔ ۔ جناح صاحب کی ایک آواز پر لبیک کہنے والے ۔ ۔ تحریکِ پاکستان کیلئے دن رات جدوجہد کرنے والے ۔ ۔ آخر سب کی محنتیں بھی رنگ لائیں ۔ ۔ دعائیں بھی قبول ہوئیں ۔ ۔ اور پاکستان آزاد ہوگیا ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔"
"مگر ۔ ۔؟" عرفان نے لقمہ دیا۔
"مگر ۔ ۔ پاکستان ہجرت کرنے سے ایک رات پہلے ۔ ۔ شدت پسندوں نے ان پر حملہ کر دیا ۔ ۔ وہ پر امن مسلمانوں کی بستی تھی جن کا جرم صرف اتنا تھا کہ اپنی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ اپنے حاصل کردہ ملک جانا چاہتے تھے ۔ ۔ ظالموں نے اس جرم کی کتنی بڑی سزا دی انہیں ۔ ۔ جو ہاتھ آیا اسے کاٹ دیا ۔ ۔ نہ عورتوں پر ترس کھایا نہ دودھ پیتے بچوں پر رحم ۔ ۔ لیاقت کہتا ہے اس کے سامنے ایک دہشت گرد نے اس کی ماں کا پیٹ تلوار سے چاک کیا پھر اسی تلوار سے اس کے باپ کی گردن اڑا دی ۔ ۔ اس کی چھوٹی بہن کو تو تلوار کی بھی ضرورت نہ پڑی۔ ۔ وہ دو سال کی معصوم بچی زمین پر پٹخے جانے سے ہی دم توڑ گئی ۔ ۔ یہ مچان پر چھپا سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا ۔ ۔ خوف کے مارے نہ حرکت کر سکا نہ اس کی آواز نکل سکی ۔ ۔ شاید اس ہی وجہ سے یہ بچ بھی گیا۔ ۔ مگر امن پسند بے گناہ مسلمانوں کی اس بستی میں لیاقت اور ایک اور بابا جی کے سوا کوئی نہیں بچ سکا ۔ ۔ ظالموں نے پاک خون پانی کے طرح بہا دیا ۔ ۔" جاوید صاحب لمحہ بھر کیلئے خاموش ہوئے۔ اس بارعرفان کچھ کہنے سے قاصر تھا ۔ ۔ اس کے جسم پر لرزہ طاری تھا۔
"اس ہی بابا جی کے ساتھ لیاقت پاکستان آیا ۔ ۔ نجانے
کہاں کہاں بھٹکتے وہ دونوں ہمارے اس علاقے میں آن پہنچے۔ جب علاقہ مکینوں کو پتہ
لگا کہ دو لوگ ہجرت کر کہ ان کے علاقے میں آئے ہیں تو بڑی محبت اور جوش سے ان
دونوں کا استقبال کیا گیا ۔ ۔ فوراً انہیں رہنے کیلئے گھر دیا گیا۔ ۔ کئی مہینوں
تک دونوں کا راشن پانی پورا کرنے کیلئے لوگ باریاں لگاتے اور زبردستی اپنی خدمات
پیش کرتے۔ بابا جی تو کچھ ہی عرصے بعد وفات پا گئے ۔ ۔ پیچھے بچا صرف لیاقت"
"ہم سب یہی سمجھتے تھے کہ لیاقت نے اتنی چھوٹی سی عمر میں جو کچھ دیکھا ہے اس کے بعد وہ بیحد سہم گیا ہوگا۔ ۔ ڈرا ہوا ہوگا۔ ۔ اداس ہوگا۔ ۔ میرے والدین نے مجھے سخت تاکید کی کہ میں اس کے ساتھ خوب اچھے طریقے سے پیش آؤں۔ ۔ اس سے دوستی کروں۔ ۔ اس کا دل بہلاؤں ۔ ۔ مگر جانتے ہو کیا عرفان؟؟ وہ ذرا بھی خوفزدہ نہیں تھا۔ ۔ میں نے اسے جب بھی دیکھا بے فکر آزاد پنچھی کی طرح چہچہاتے دیکھا۔ ۔ اس کے چہرے پر اس قدر سکون اور اطیمنان تھا جیسے کوئی تکلیف اسے کبھی چھو کر بھی نہ گزری ہو ۔ ۔ آخر ایک دن میں نے اس سے کھیلتے ہوئے پوچھ ہی لیا ۔ ۔ یار لیاقت ۔ ۔ تم نے بتایا تھا تمہارے امی ابو بھائی سب کو ظالموں نے مار دیا ۔ ۔ پھر تم اتنے خوش کیسے رہ سکتے ہو؟؟ وہ ہنس کر بولا ۔ ۔ یار جاویدے میرا ابا کہتا تھا پاکستان جنت ہے جنت ۔ ۔ تو بتا جنت میں آ کر کوئی ہنسے کھیلے نہ تو کیا رونے بیٹھ جائے؟؟ ۔ ۔ میں اس کے جواب بڑا حیران ہوا ۔ ۔ مگر امی کی تو یاد آتی ہوگی نا؟؟ میں نے امی پر زور دیتے ہوئے پوچھا ۔ ۔ ماں۔۔۔ وہ کچھ سنجیدہ سا ہو کر بولا ۔ ۔ پھر زمین پر دونوں بازو پھیلا کر ایسے لیٹ گیا جیسے زمین سے گلے لگ رہا ہو ۔ ۔ مجھے آج بھی اس کی یہ حرکت نہیں بھولتی عرفان!!" جاوید صاحب کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔
عمران کی بھی حالت کچھ ایسی ہی تھی ۔ ۔ ۔ "پھر ۔ ۔ پھر کیا ہوا نانا ابو۔ ۔ میرا مطلب ۔ ۔ اگر وہ اتنا بڑا حادثہ اتنے بڑے دل کے ساتھ جھیل گئے ۔ ۔ تو پھر اس کے بعد ایسا کیا ہوا جو ۔ ۔ جو وہ چاچا مستانہ کیسے بن گئے؟"
"ہم سب یہی سمجھتے تھے کہ لیاقت نے اتنی چھوٹی سی عمر میں جو کچھ دیکھا ہے اس کے بعد وہ بیحد سہم گیا ہوگا۔ ۔ ڈرا ہوا ہوگا۔ ۔ اداس ہوگا۔ ۔ میرے والدین نے مجھے سخت تاکید کی کہ میں اس کے ساتھ خوب اچھے طریقے سے پیش آؤں۔ ۔ اس سے دوستی کروں۔ ۔ اس کا دل بہلاؤں ۔ ۔ مگر جانتے ہو کیا عرفان؟؟ وہ ذرا بھی خوفزدہ نہیں تھا۔ ۔ میں نے اسے جب بھی دیکھا بے فکر آزاد پنچھی کی طرح چہچہاتے دیکھا۔ ۔ اس کے چہرے پر اس قدر سکون اور اطیمنان تھا جیسے کوئی تکلیف اسے کبھی چھو کر بھی نہ گزری ہو ۔ ۔ آخر ایک دن میں نے اس سے کھیلتے ہوئے پوچھ ہی لیا ۔ ۔ یار لیاقت ۔ ۔ تم نے بتایا تھا تمہارے امی ابو بھائی سب کو ظالموں نے مار دیا ۔ ۔ پھر تم اتنے خوش کیسے رہ سکتے ہو؟؟ وہ ہنس کر بولا ۔ ۔ یار جاویدے میرا ابا کہتا تھا پاکستان جنت ہے جنت ۔ ۔ تو بتا جنت میں آ کر کوئی ہنسے کھیلے نہ تو کیا رونے بیٹھ جائے؟؟ ۔ ۔ میں اس کے جواب بڑا حیران ہوا ۔ ۔ مگر امی کی تو یاد آتی ہوگی نا؟؟ میں نے امی پر زور دیتے ہوئے پوچھا ۔ ۔ ماں۔۔۔ وہ کچھ سنجیدہ سا ہو کر بولا ۔ ۔ پھر زمین پر دونوں بازو پھیلا کر ایسے لیٹ گیا جیسے زمین سے گلے لگ رہا ہو ۔ ۔ مجھے آج بھی اس کی یہ حرکت نہیں بھولتی عرفان!!" جاوید صاحب کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔
عمران کی بھی حالت کچھ ایسی ہی تھی ۔ ۔ ۔ "پھر ۔ ۔ پھر کیا ہوا نانا ابو۔ ۔ میرا مطلب ۔ ۔ اگر وہ اتنا بڑا حادثہ اتنے بڑے دل کے ساتھ جھیل گئے ۔ ۔ تو پھر اس کے بعد ایسا کیا ہوا جو ۔ ۔ جو وہ چاچا مستانہ کیسے بن گئے؟"
"دیکھ لیا نا اس نے عرفان ۔ ۔ اس نے اس سے بھی بڑا
حادثہ دیکھ لیا ۔ ۔ اس نے اپنی آنکھوں سے ۔ ۔ اس ملک کو تباہ ہوتے دیکھ لیا ۔ ۔ جس
وطن کے لیے اس کے ماں باپ نے اپنا خون بہایا ۔ ۔ جس سرزمین کی آغوش سے اس نے ممتا
حاصل کی ۔ ۔ اس نے اسے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں برباد ہوتے دیکھ لیا ۔ ۔ وہ پاکستان کو ایک خاندان سمجھتا تھا ۔ ۔
اس نے اپنی آنکھوں سے اس خاندان کو ٹوٹتے دیکھا ۔ ۔ بکھرتے دیکھا ۔ ۔ فرقوں میں ۔
۔ قوموں میں ۔ ۔ سیاسی گروہوں میں ۔ ۔ اس نے دیکھ لیا ۔ ۔ ان سب لوگوں کو ۔ ۔ اپنی ماں کے پیٹ میں تلوار گھونپتے ۔ ۔ پھر سے
دیکھ لیا ۔ ۔" فرطِ جذبات سے جاوید صاحب کے فقرے بے ترتیب ہوتے جا رہے تھے ۔
۔ "اس کی بے فکری ۔ ۔ ختم ہوتی چلی گئی ۔ ۔ بے چینی ۔ ۔ اضطراب ۔ ۔ خوف نے اس
کی جگہ لے لی ۔ ۔ وہ مجھے کہتا ۔ ۔ یار جاویدے یہ کیا کر رہے ہیں لوگ میرے پاکستان
کے ساتھ ۔ ۔ میرے پاس بھلا کیا جواب ہوتا۔ ۔
آخر وہ مجھ سے بھی ناراض ہوگیا ۔ ۔ کہتا تھا تو سرکاری ادارے میں افسر ہے ۔
۔ تو کیوں اپنے ادارے میں بے ایمانی کرنے والوں کا منہ نہیں نوچ لیتا ۔ ۔ کیوں
پاکستان کے ساتھ خیانت کرنے والوں کا قتل نہیں کر دیتا ۔ ۔ میں کیا بولتا اسے ۔ ۔ اس کے سامنے اس کی متاع
جاں کو چھلنی کیا جاتا رہا ۔ ۔ آخر وہ ۔ ۔ چاچا مستانہ بن گیا۔ ۔ جو لوگوں کو پکڑ کر ان پر غصہ نکالتا ہے ۔ ۔ وہ
جانتا ہے اگر لوگ اس کے پاکستان کے ساتھ مخلص ہوتے تو کیا مجال تھی کسی کی کہ اس
ملک کو نقصان پہنچاتا۔ ۔ ۔ وہ غیر ملکی
ترانے اپنے ملک میں بجتے دیکھتا ہے تو لوگوں کے ٹی وی توڑ دیتا ہے ۔ ۔ وہ پاگل ہے
۔ ۔ یا شاید ہم ہی نہ سمجھ سکے ۔ ۔ نہ اس کو ۔ ۔ نہ پاکستان کو ۔ ۔ نہ اس کے پیچھے
دی جانے والی قربانیوں کو۔ ۔ نہ شہیدوں کے
خون کی قدر کو ۔ ۔ نہ آزادی کی قیمت کو۔ ۔ ہم کچھ نہیں سمجھ سکے ۔ ۔ ہاں ہم ہی پاگل
ہیں۔" جاوید صاحب ٹرانس کی کیفیت میں بولتے بولتے کمرے سے باہر نکل گئے۔
اگلی صبح عرفان ہاتھ منہ دھوتے ہی اپنا ناشتہ اٹھا کر چاچا
مستانہ کی طرف چل پڑا ۔ ۔ مکان کا دروازہ پورا کھلا ہوا تھا اور چاچا دروازے کی
طرف کمر کیے اپنی بوسیدہ سے چارپائی پر بیٹھے بے چینی سے پیر ہلا رہے تھے ۔ ۔ عرفان
خاموشی سے ان کے پیچھے جا بیٹھا ۔ ۔ اب وہ چاچا کی بڑبڑاہٹ صاف سن بھی سکتا تھا
اور سمجھ بھی ۔ ۔ "کیا کر دیا تم لوگوں نے ۔ ۔ قدر نہیں کی ۔ ۔ ۔ تم لوگوں
کیلئے جنت کا ٹکڑا لائے ۔ ۔ تم نے قدر نہیں کی ۔ ۔ کیا کر دیا تم لوگوں نے ۔
۔" چاچا مستقل بڑبڑا رہے تھے ۔ ۔
"چاچا ۔ ۔ " عرفان نے ان کو ہلکے سے آواز دی ۔ ۔ "چاچا!!"
جواب نہ ملنے پر دوسری بار تھوڑا زور سے مخاطب کیا۔ چاچا ہڑبڑا کر اٹھ گئے ۔ ۔ عرفان
کو دیکھتے ہی پہلے تو ان کے چہرے پر شدید غصے کے آثار نمودار ہوئے ۔ ۔ پھر تھکاوٹ
سے بھرپور افسردگی نے غصے کی جگہ لے لی ۔ ۔
"چاچا یہ کھا لیں" عرفان ان کے تاثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے جلدی سے ناشتہ کھولنے لگا۔
"بیٹا۔ ۔ مجھے ایک بات بتائے گا؟" چاچا اس کے پاس بیٹھ کر پیار سے پوچھنے لگے ۔ ۔
"دو باتیں بتاؤنگا چاچا آپ پہلے کچھ کھا لیں۔" عرفان کو ان کی آواز سن کر بیحد تسلی ہوئی کہ وہ اب بھی کچھ ہوش رکھتے ہیں۔
"نہیں پہلے میری بات کا جواب دے ورنہ نہیں کھاؤنگا۔" وہ بچوں کی طرح ناراض ہوتے ہوئے بولے۔
"اچھا پوچھیں۔" عرفان کو ہار ماننی پڑٰی۔
"تو نے ۔ ۔ دیکھا اسے؟" چاچا نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔
"کسے؟" عرفان حیرت سے بولا۔
"میرے پاکستان کو ۔ ۔ جو ہم نے آزاد کیا تھا نا ۔ ۔ وہ والا۔ ۔ میرا پاکستان کہاں گیا ۔ ۔؟؟" چاچا نے معصومیت سے پوچھا۔
"آئیں میرے ساتھ ۔ ۔" عرفان نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں آبادی کی طرف لے آیا۔ یہ چودہ اگست کی صبح تھی ۔ ۔ نوجوان ۔ ۔ بچے۔۔ بوڑھے ۔ ۔ سب ہی سبز پرچم اور سبز رنگ سے اپنی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، چہرے اور ہاتھوں کو سجائے ۔ ۔ جھنڈے لہراتے اِدھر سے اُدھر خوشی سے سرشار گھوم رہے تھے۔ ۔ جگہ جگہ پاکستان کے پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ لہرا رہے تھے اور ان سے نکلنے والی ان دیکھی ریشمی ڈوروں سے تمام لوگ اتحاد کے حسین ربط میں بندھے نظر آ رہے تھے ۔ ۔ خود ان کے سر کے اوپر بھی ایک طویل القامت سبز پرچم ایک گھر سے دوسرے گھر تک بندھا ہوا تھا جو اپنی ٹھنڈی چھاؤں سے سورج کی جھلسا دینے والی تپش کو ان تک پنچنے سے روک رہا تھا ۔ ۔ چاچا کے جھریوں زدہ چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی ۔ ۔ "ابھی سے ہار مت مان لیں چاچا ۔ ۔ اس سفر کا اختتام ہماری جیت کے سوا کسی چیز پر نہیں ہو سکتا ۔ ۔ جسے اللہ کے نام پر حاصل کیا ہے اسکی بقاء کیلئے بھی اللہ ہمارا ساتھ دے گا ۔ ۔ ماضی کی غلطیاں ہم بچے سدھار لیں گے ۔ ۔ بس آپ بڑوں کی دعائیں اور رہنمائی ہمارے ساتھ ہو۔" عرفان نے روٹی کا ایک نوالہ چاچا کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔ چاچا نے عرفان کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ دیا۔
چوک پر ایک بڑا سا ڈیک دھرا تھا جس پر پوری آواز کے ساتھ ترانہ بج رہا تھا ۔ ۔
اندھیروں کو مٹائے گا ۔ ۔ اجالا بن کے چھائے گا ۔ ۔ یہ خطہ انقلابی ہے ۔ ۔ نئی دنیا بسائے گا ۔ ۔ اگر اللہ نے چاہا تو زمانہ وہ بھی آئے گا ۔ ۔ جہاں تک وقت جائے گا اسے آگے ہی پائے گا ۔ ۔ ندا قائد کی ہے اقبال کا الہام پاکستان!!
"چاچا یہ کھا لیں" عرفان ان کے تاثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے جلدی سے ناشتہ کھولنے لگا۔
"بیٹا۔ ۔ مجھے ایک بات بتائے گا؟" چاچا اس کے پاس بیٹھ کر پیار سے پوچھنے لگے ۔ ۔
"دو باتیں بتاؤنگا چاچا آپ پہلے کچھ کھا لیں۔" عرفان کو ان کی آواز سن کر بیحد تسلی ہوئی کہ وہ اب بھی کچھ ہوش رکھتے ہیں۔
"نہیں پہلے میری بات کا جواب دے ورنہ نہیں کھاؤنگا۔" وہ بچوں کی طرح ناراض ہوتے ہوئے بولے۔
"اچھا پوچھیں۔" عرفان کو ہار ماننی پڑٰی۔
"تو نے ۔ ۔ دیکھا اسے؟" چاچا نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔
"کسے؟" عرفان حیرت سے بولا۔
"میرے پاکستان کو ۔ ۔ جو ہم نے آزاد کیا تھا نا ۔ ۔ وہ والا۔ ۔ میرا پاکستان کہاں گیا ۔ ۔؟؟" چاچا نے معصومیت سے پوچھا۔
"آئیں میرے ساتھ ۔ ۔" عرفان نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں آبادی کی طرف لے آیا۔ یہ چودہ اگست کی صبح تھی ۔ ۔ نوجوان ۔ ۔ بچے۔۔ بوڑھے ۔ ۔ سب ہی سبز پرچم اور سبز رنگ سے اپنی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، چہرے اور ہاتھوں کو سجائے ۔ ۔ جھنڈے لہراتے اِدھر سے اُدھر خوشی سے سرشار گھوم رہے تھے۔ ۔ جگہ جگہ پاکستان کے پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ لہرا رہے تھے اور ان سے نکلنے والی ان دیکھی ریشمی ڈوروں سے تمام لوگ اتحاد کے حسین ربط میں بندھے نظر آ رہے تھے ۔ ۔ خود ان کے سر کے اوپر بھی ایک طویل القامت سبز پرچم ایک گھر سے دوسرے گھر تک بندھا ہوا تھا جو اپنی ٹھنڈی چھاؤں سے سورج کی جھلسا دینے والی تپش کو ان تک پنچنے سے روک رہا تھا ۔ ۔ چاچا کے جھریوں زدہ چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی ۔ ۔ "ابھی سے ہار مت مان لیں چاچا ۔ ۔ اس سفر کا اختتام ہماری جیت کے سوا کسی چیز پر نہیں ہو سکتا ۔ ۔ جسے اللہ کے نام پر حاصل کیا ہے اسکی بقاء کیلئے بھی اللہ ہمارا ساتھ دے گا ۔ ۔ ماضی کی غلطیاں ہم بچے سدھار لیں گے ۔ ۔ بس آپ بڑوں کی دعائیں اور رہنمائی ہمارے ساتھ ہو۔" عرفان نے روٹی کا ایک نوالہ چاچا کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔ چاچا نے عرفان کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ دیا۔
چوک پر ایک بڑا سا ڈیک دھرا تھا جس پر پوری آواز کے ساتھ ترانہ بج رہا تھا ۔ ۔
اندھیروں کو مٹائے گا ۔ ۔ اجالا بن کے چھائے گا ۔ ۔ یہ خطہ انقلابی ہے ۔ ۔ نئی دنیا بسائے گا ۔ ۔ اگر اللہ نے چاہا تو زمانہ وہ بھی آئے گا ۔ ۔ جہاں تک وقت جائے گا اسے آگے ہی پائے گا ۔ ۔ ندا قائد کی ہے اقبال کا الہام پاکستان!!
Pic Sources: http://farm4.static.flickr.com/3074/2851822835_df98fd6f0d.jpg
https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhV_ZF3q3Nw2Rq7TTFaPMgyvCHnDH9OmZndnx36QrS7yBcp30voDmFtJv9NIEB70ErtW497Y_LiFlF68TOCjiRW1RqWpkQZt7PExsLnv-A7qgIxDkvguCoPE2vMcfjrytEljWxAPF1VPpbP/s1600/Pakistan+flag.jpg
http://news.uniquepakistan.com.pk/wp-content/uploads/2014/10/147.jpg
https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhV_ZF3q3Nw2Rq7TTFaPMgyvCHnDH9OmZndnx36QrS7yBcp30voDmFtJv9NIEB70ErtW497Y_LiFlF68TOCjiRW1RqWpkQZt7PExsLnv-A7qgIxDkvguCoPE2vMcfjrytEljWxAPF1VPpbP/s1600/Pakistan+flag.jpg
http://news.uniquepakistan.com.pk/wp-content/uploads/2014/10/147.jpg
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں