ہفتہ، 8 اگست، 2015

یہ میری ماں ہیں (دوسرا اور آخری حصہ)

یہ میری ماں ہیں:

https://asdhelp.files.wordpress.com/2010/08/teacher_0.jpg

اگلے دن جب مسز تھامسن کلاس میں داخل ہوئیں تو انہوں نے اپنی عادت مستمرہ کے مطابق اپنا روایتی جملہ "آئی لو یو آل" دہرایا ۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ آج بھی جھوٹ بول رہی ہیں۔ کیونکہ اسی کلاس میں بیٹھے ایک بے ترتیب بالوں والے بچے جیڈی کے لیے جو محبت وہ آج اپنے دل میں محسوس کر رہی تھیں وہ کلاس میں بیٹھے اور کسی بچے کے لیے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ لیکچر کے دوران انہوں نے حسبِ معمول ایک سوال جیڈی پر داغا اور
ہمیشہ ہی کی طرح جیڈی نے سر جھکا لیا۔ جب کچھ دیر تک مسز تھامسن کی طرف سے کوئی ڈانٹ پھٹکار اور ہم جماعت ساتھیوں کی جانب سے ہنسی کی آواز اس کے کانوں میں نہ پڑی تو اس نے اچھنبے میں سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ خلافِ توقع ان کے ماتھے پر آج بل نہ تھے، وہ مسکرا رہی تھیں۔ انہوں نے جیڈی کو اپنے پاس بلوایا اور اسے سوال کا جواب بتا کر زبردستی دہرانے کے لیے کہا۔ جیڈی تین چار دفعہ کے اصرار کے بعد آخر بول ہی پڑا۔ اس کے جواب دیتے ہی مسز تھامسن نے نہ صرف خود پرجوش انداز میں تالیاں بجائیں بلکہ باقی سب سے بھی بجوائیں۔ پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا۔ مسز تھامسن ہر سوال کا جواب اسے خود بتاتیں اور پھر اس کی خوب پذیرائی کرتیں۔ ہر اچھی مثال جیڈی سے منسوب کی جانے لگی۔ رفتہ رفتہ پرانا جیڈی سکوت کی قبر پھاڑ کر باہر آگیا۔ اب مسز تھامسن کو سوال کے ساتھ جواب بتانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ وہ روز بلا نقص جوابات دے کر سب کو متاثر کرتا اور نتے نئے سوالات پوچھ کر سب کو حیران بھی۔ اس کے بال اب کسی حد تک سنورے ہوئے ہوتے، کپڑے بھی کافی حد تک صاف ہوتے جنہیں شاید وہ خود دھونے لگا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سال ختم ہوگیا اور جیڈی نے دوسری پوزیشن حاصل کرلی۔ الوداعی تقریب میں سب بچے مسز تھامسن کے لیے خوبصورت تحفے تحائف لے کر آئے اور مسز تھامسن کے ٹیبل پر ڈھیر کرنے لگے۔ ان خوبصورتی سے پیک ہوئے تحائف میں ایک پرانے اخبار میں بد سلیقہ طرز پر پیک ہوا ایک تحفہ بھی پڑا تھا۔ بچے اسے دیکھ کر ہنس پڑے۔ کسی کو جاننے میں دیر نہ لگی کہ تحفے کے نام پر یہ چیز جیڈی لایا ہوگا۔ مسز تھامسن نے تحائف کے اس چھوٹے سے پہاڑ میں سے لپک کر اسے نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اس کے اندر ایک لیڈیز پرفیوم کی آدھی استعمال شدہ شیشی اور ایک ہاتھ میں پہننے والا ایک بوسیدہ سا کڑا تھا جس کے زیادہ تر موتی جھڑ چکے تھے۔ مسز تھامسن نے خاموشی کے ساتھ اس پرفیوم کو خود پر چھڑکا اور ہاتھ میں کڑا پہن لیا۔ بچے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ ۔خود جیڈی بھی۔ آخر جیڈی سے رہا نہ گیا اور مسز تھامسن کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ ۔ کچھ دیر بعد اس نے اٹک اٹک کر مسز تھامسن کو بتایا کہ "آج آپ سے بالکل میری ماں جیسی خوشبو آ رہی ہے۔"

وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔ دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے سال میں بدلتے بھلا کہاں دیر لگتی ہے؟ مگر ہر سال کے اختتام پر مسز تھامسن کو جیڈی کی طرف سے ایک خط باقاعدگی کے ساتھ موصول ہوتا جس میں لکھا ہوتا کہ "میں اس سال بہت سارے نئے ٹیچرز سے ملا۔ ۔ مگر آپ جیسا کوئی نہیں تھا۔" پھر جیڈی کا اسکول ختم ہوگیا اور خطوط کا سلسلہ بھی۔ کئی سال مزید گزرے اور مسز تھامسن ریٹائر ہو گئیں۔ ایک دن انہیں اپنی ڈاک میں جیڈی کا خط ملا جس میں لکھا تھا: 
"اس مہینے کے آخر میں میری شادی ہے اور میں آپ کی موجودگی کے سوا شادی کا نہیں سوچ سکتا۔ ایک اور بات۔ ۔ میں زندگی میں بہت سارے لوگوں سے مل چکا ہوں۔ ۔ آپ جیسا کوئی نہیں ہے - ڈاکڑ جیڈی الفریڈ" 
ساتھ ہی ٹیکساس کا ریڑن ٹکٹ بھی لفافے میں موجود تھا۔ مسز تھامسن خود کو ہر گز نہ روک سکتی تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر سے اجازت لی اور ٹیکساس روانہ ہو گئیں۔ شادی میں کچھ دن باقی تھے اور وہ جیڈی کو شادی کے دن ہی سرپرائز دینا چاہتی تھیں اسلیے ایک ہوٹل میں رک گئیں۔ عین شادی کے دن جب وہ چرچ پہنچیں تو تھوڑی لیٹ ہو چکی تھیں۔ انہیں لگا تقریب ختم ہو چکی ہوگی۔ مگر یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ شہر کے بڑے بڑے ڈاکڑ، بزنس مین اور یہاں تک کے چرچ کا پادری بھی اکتایا ہوا کھڑا تھا مگر جیڈی رسومات کی ادائیگی کے بجائے گیٹ کی طرف ٹکٹکی لگائے ان کی آمد کا منتظر تھا۔ ان کے پہنچتے ہی جیڈی نے ان کا ہاتھ پکڑا جس میں انہوں نے اب تک وہ بوسیدہ سا کڑا پہنا ہوا تھا اور انہیں سیدھا اسٹیج پر لے گیا۔ مائیک ہاتھ میں پکڑ کر اس نے کچھ یوں اعلان کیا "دوستو آپ سب ہمیشہ مجھ سے میری ماں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں نے سب سے وعدہ کیا تھا کہ جلد آپ سب کو ان سے ملواؤنگا۔ ۔ ۔ یہ میری ماں ہیں!!"
-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x-x--x-x-x-x--x-x-x-x-x-x-x-x--x-x-x-x-x-x-x-x-x
عزیز دوستو اس خوبصورت کہانی کو صرف استاد اور شاگرد کے رشتے سے منسوب کر کہ ہی مت سوچیے گا۔ اپنے آس پاس دیکھیے، جیڈی جیسے کئی پھول مرجھا رہے ہیں جنہیں آپ کی ذرا سی توجہ، محبت اور شفقت نئی زندگی دے سکتی ہے۔ اس پیغام کو شیئر کیجیے اور مزید کہانیوں کے لیے دوبارہ وزٹ کرنا نہ بھولیے گا۔




0 comments:

Facebook Blogger Plugin: Bloggerized by AllBlogTools.com Enhanced by MyBloggerTricks.com

ایک تبصرہ شائع کریں